آج 3 مئی ہے — عالمی یومِ آزادیٔ صحافت۔
لیکن کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟
کیا صحافت آزاد ہے؟
کیا وہ جو سچ بولتے ہیں، اب بھی زندہ ہیں؟
ایک طرف ترقی یافتہ دنیا میں صحافی نوبل انعام جیتتے ہیں، دوسری طرف ہمارے ہاں سچ بولنے والا صحافی یا تو "لاپتہ" ہو جاتا ہے، یا پھر اُس کی آواز سوشل میڈیا پر "سائلنٹ" کر دی جاتی ہے۔
کبھی اشتہارات کے ہتھیار سے دباؤ، تو کبھی بندوق کی نوک پر سچ کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔
صحافت صرف ایک پیشہ نہیں — یہ ایک ذمے داری ہے، ایک مزاحمت ہے، ایک آئینہ ہے جس میں معاشرہ اپنی اصل شکل دیکھ سکتا ہے۔
تو سوال یہ ہے:
اگر آئینہ ہی توڑ دیا جائے، تو چہروں کی حقیقت کون بتائے گا؟
اگر قلم کو زنجیر پہنا دی جائے، تو الفاظ کیسے آزاد ہوں گے؟
ہمیں یہ سوچنا ہوگا:
آج جو صحافی پابندِ سلاسل ہیں، وہ کل ہمارے لیے آواز اٹھا رہے تھے۔
کل اگر یہ آوازیں خاموش ہو گئیں، تو اگلا نمبر ہمارا بھی ہو سکتا ہے۔
آزادیٔ صحافت، دراصل آزادیٔ انسانیت ہے۔
جب صحافی آزاد ہوتے ہیں، تب قومیں بیدار ہوتی ہیں۔
جب صحافی بولتے ہیں، تب ظالم لرزتے ہیں۔
تو آئیے، آج صرف پوسٹ نہ کریں — آواز بنیں۔
اپنے حق، اپنے سچ، اور اپنے صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔
کیونکہ اگر آج ہم خاموش رہے،
تو کل ہماری کہانی بھی کوئی سنانے والا نہیں ہوگا۔
0 تبصرے