وفاقی حکومت نے 1980 کی دہائی میں ایل بی او ڈی تعمیر کیا مگر اسپائنلز کی کھدائی کے دوران قدرتی آبی گزرگاہیں بند ہوگئیں:سید مراد علی شاہ
بدین: وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے 1980 کی دہائی میں لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (ایل بی او ڈی) تعمیر کیا مگر اسپائنلز کی کھدائی کے دوران قدرتی آبی گزرگاہیں بند ہوگئیں، جس کے سبب بدین، میرپورخاص، سانگھڑ اور نواب شاہ کی زمینیں سیلاب کے دوران زیر آب آنے لگیں اور سیم و تھورزدہ ہونے لگیں اور اس سے ماحولیاتی نظام کافی حد تک متاثر ہوا جس سے ذریعہ معاش کے مواقع بھی محدود ہونے لگے ۔ ان مسائل کو دیکھتے ہوئے سندھ حکومت نے معاشی بحالی اور زمین کو بچانے کی خاطر آر ڈی 210 میں اسپائنل ایسکیپ ریگولیٹر کی تعمیر کے لیے ڈھورو پران کے قدرتی راستے کو دوبارہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈھورو پران سے شکور جھیل کی بحالی کو حتمی شکل دی جائے گی ۔ یہ بات انہوں نے ایل بی او ڈی سسٹم کا افتتاح کرنے کے بعد عوام سے خطاب کے دوران کہی ۔ تقریب میں وزیر آبپاشی جام خان شورو، سیکرٹری آبپاشی ظریف کھیڑو، علاقے کے منتخب نمائندوں اور معززین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے ایل بی او ڈی پراجیکٹ کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا کہ 1984 سے 1997 تک ایل بی او ڈی اسٹیج 1 پراجیکٹ واپڈا نے شہید بینظیر آباد، میرپورخاص، سانگھڑ اور بدین اضلاع میں 1.27 ملین ایکڑ اراضی کو سیم و تھور سے محفوظ کرنے کے لیے تیار کیاتھا۔مراد علی شاہ نے کہا کہ ایل بی او ڈی اسپائنل ڈرین نکاسی کے نیٹ ورک کو سمندر سے جوڑتا ہے۔ ایل بی او ڈی اسپائنل ڈرین زائد پانی کو جمع کر کےاسے ایک کینال یا دو برانچوں ، کڈھن پتیجی آؤٹ فال ڈرین (KPOD) اور ڈھورو پران آؤٹ فال ڈرین (DPOD) کے ذریعے آگے کی جانب بڑھاتا ہے -۔ اسپائنل ڈرین سسٹم زیادہ نمکین پانی کو KPOD کے ذریعے سمندر میں بھیجنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ کے پی او ڈی 26 میل لمبی کینال کے ذریعے سمندر سے جڑا ہے جسے ٹائیڈل لنک کہا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ تین ڈویژنز سے 204 ڈرین، جن کی لمبائی 1735 میل ہے، ایل بی او ڈی میں ڈسچارج ہوتے ہیں۔ ان میں بدین سے 108 نالے جن کا رقبہ 813 میل ہے، میرپورخاص سے 51 نالےجن کا رقبہ 454 میل پر محیط ہےاور سانگھڑ سے 43 نالے، جو 336.6 میل پر مشتمل ہیں۔مراد علی شاہ نے کہاکہ واپڈا (وفاقی حکومت) نے 1993 میں ایل بی او ڈی اسپائنل کو محکمہ آبپاشی سندھ کے حوالے کیا مگر یہ نظام اتنا کارگر ثابت نہ سکا اور 1994 کی مون سون کی شدید بارشوں کے دوران نقصان کا سبب بنا، جس کی وجہ اسے 1995 میں دوبارہ واپڈا کے حوالے کردیاگیا۔ واپڈا نے فروری 2002 کو دوبارہ ایل بی او ڈی سسٹم سندھ ایری گیشن ڈپارٹمنٹ کے حوالے کیا۔
ایل بی او ڈی پروجیکٹ: مرادعلی شاہ نے کہا کہ ایل بی او ڈی پروجیکٹ میں 261.12 کلومیٹر طویل اسپائنل ڈرین، 99 کلومیٹر KPOD/DPOD، 43 کلومیٹر ٹائیڈل لنک، 1666 کلومیٹر سرفیس ڈرینز اور 1673 درینیج ویل شامل ہیں۔ اس سے 1.270 ملین ایکڑ رقبہ کو فائدہ پہنچے گا۔ منصوبے کی لاگت 33.44 بلین روپے ہے۔
آغاز:اسے جولائی 1986 کو شروع کیاگیا اور یکم فروری 2002 کو محکمہ آبپاشی کے حوالے کیاگیا۔
حکمت عملی اور مسائل :حکمت عملی اور مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ 4 جولائی 2022 کو شدید بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا اور ایل بی او ڈی کے نکاسی آب کے نیٹ ورک نے سیلابی پانی کو موثرانداز سے ڈسچارج کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نالوں کی صفائی سے نکاسی آب کا سسٹم تیزی سے کام کرتاہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ ایل بی او ڈی سسٹم کا مقصد 48 گھنٹوں میں 125 ملی میٹر بارش کے پانی کو پانچ دن کے اندر ڈسچارج کرناہے۔ مرادعلی شاہ نے مزید کہا کہ 2020 اور 2022 کی حالیہ شدید بارشوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اورسسٹم کے اندر خامیوں کو اجاگر کیا اور دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر موجودہ نکاسی آب کے نظام کے نقائص کی نشاندہی کی۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ بدین، میرپورخاص، سانگھڑ اور نواب شاہ اضلاع سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ہمیشہ سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کی زمینیں نشیبی سطح پر واقع ہیں اور اس سے ماحولیاتی نظام کافی حد تک متاثر ہوا جس سے ذریعہ معاش کے مواقع بھی محدود ہونے لگے ۔ 2022 کے مون سون کے دوران اسپائنل گیجز 2011 کی طرح بلند ترین گیجز کی سطح تک پہنچ چکے تھے۔ اسپائنل کو 4600 کیوسک پانی کے بھائو کے لحاظ سے ڈیزائن کیا گیا تھا مگر اب تقریباً 12000 کیوسک پانی ایل بی او ڈی سسٹم کے ذریعے سمندر میں داخل ہوگا۔ 28 اگست 2022 کو پران ڈھورو پر آر ڈی 7 اور 8 میں دو بڑے شگاف پڑے۔ آر ڈی 8 کے شگاف کو اگلے ہی دن بند کر دیا گیا جبکہ آر ڈی 7 پران ڈھورو کے شگاف کو بند کرنے میں پانچ دن لگے۔
مسئلہ: اس وقت ایل بی او ڈی سسٹم کے اندر بہنے والے تمام ڈھورے، جن میں پتھورو، ہاکرو، نارو، ڈگری، پران اور پنگریو شامل ہیں،جو اپنی پرانی قدرتی گزرگاہوں سے گزرتے ہیں جو بالآخر ڈھورو پران سے شکور جھیل میں جا گرتے ہیں۔ ایل بی او ڈی اسپائنل ڈرین اس قدرتی گزر گاہ کو چار مقامات آر ڈی 275، آر ڈی 251، آر ڈی 239، اور آر ڈی 210 پر کاٹتی ہے ۔ یہ گزرگاہیں ایل بی او ڈی سسٹم کے اندر بہنے والے تمام ڈھوروں کے آس پاس کے علاقوں میں سیلاب کا باعث بنتے ہیں، بشمول پتھورو، ہاکرو، نارو، ڈگری، پنگریو اور پران قدرتی راستوں سے گزرتے ہوئے بالآخر ڈھورو پران سے ہوتے ہوئے شکور جھیل میں جا گرتے ہیں۔
سائفون کی تعمیر: اسپائنل ڈرین RD 275+500 پر ڈھورو پران سیائفون کی تعمیرعمل میں لائی گئی ہے۔ اسپائنل ڈرین RD 210+800 پر ڈھورو پنگریو سائفون کی تعمیر ایم ایم ڈی اور ڈگری ڈھورو ڈسچارج کو RD 275 پر ایک سائفن کے ذریعے ڈھورو پران کی جانب موڑے گی جوکہ ہاکرو ڈھورو سے ملے گی۔ یہ اسپائنل ڈرین پر اضافی بوجھ کو کم کرے گا اور ڈھورو کو ایکٹیویٹ کرے گا، جس سے نکاسی کی مجموعی کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔ 2022 کے شدید بارشوں سے پنگریو ڈھورو نے ایل بی او ڈی سسٹم اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے لیے اہم خطرہ ثابت ہوئی۔ سائفن پنگریو ڈھورو سے خارج ہونے والے پانی کی زیادہ مقدار کوڈھورو پران کی جانب موڑ ے گا جو شکور جھیل سے نکل کر خطرات کو کم کرے گا اور سسٹم کی صلاحیت میں اضافہ کرے گا۔ 2022 میں سسٹم نے 12,000 کیوسک سیلابی پانی کا اخراج کیا جو اس کی 4600 کیوسک ڈیزائن کی گنجائش سے کہیں زیادہ تھا اس کی وجہ سے اسپائنل ڈرین میں پانی کی سطح کافی بلند ہو گئی، جس کے نتیجے میں ایل بی او ڈی سسٹم کے مین ڈرین میں رکاوٹیں اور بیک فلو ہوا جوکہ نواب شاہ، سانگھڑ، میرپورخاص اور بدین میں شگاف اور اوور ٹاپنگ کا سبب بنا۔
ایل بی او اسپائنل ڈرین کی بحالی: محکمہ آبپاشی نے ایل بی او سپائنل ڈرین کی بحالی اور سانگھڑ میں نکاسی آب کے نظام کو بہتر کیا۔ میرپورخاص اور بدین میں سائفنز کی تعمیر اور ایل بی او ڈی سسٹم اور قدرتی ڈھوروں کی بحالی کے بعد اسپائنل ڈرین پر اضافی بوجھ کم ہو گا۔ اس سے اسپائنل ڈرین کی سطح کم ہو جائے گی، جس سے ایل بی او ڈی سسٹم کے مین ڈرین بشمول نواب شاہ، سانگھڑ، میرپورخاص اور بدین کے نکاسی آب کے نیٹ ورکس تک رسائی حاصل ہو گی۔ 2022 میں اسپائنل ڈرین کی بلند ترین سیلاب کی سطح 27.53 فٹ تھی، اوپر کی سطح میں 4 فٹ کا اضافہ کیاگیا ہے جوکہ 31.53 فٹ تک پہنچ گئی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کھپرو، عمرکوٹ، ڈگری، سندھڑی اور ٹنڈو محمد خان سمیت کئی دیگر علاقوں میں نکاسی آب کا نظام تسلی بخش نہیں جس کی وجہ سے شدید بارشوں کے دوران ان علاقوں میں سیلاب کا خطرہ رہتاہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ ایک بار جب ڈھوروں کو بحال کیاجائے گا تو دیگر علاقوں کے لیے نکاسی کا نظام تیار کرکے ڈھوروں سے منسلک کر دیا جائے گا۔ اور اس نیٹ ورک کا اخراج شکور جھیل سے ہوگا، قدرتی نکاسی کے راستوں کی بحالی سے سماجی فوائڈ بھی حاصل ہوں گے۔ مراد شاہ نے کہا کہ سائفونز کی تعمیر اور LBOD سسٹم کی بحالی سے آس پاس کے علاقوں میں سیلاب کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے اس سے مقامی کمیونٹیز کی حفاظت اور بہبود میں اضافہ ہوگا۔اس منصوبے کی مدد سے زرعی زمینوں کو سیلاب سے محفوظ کیاجاسکتا ہے اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیاجاسکتا ہے جس سے کسانوں کی زندگی پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور معاشی استحکام لائے گا۔ نکاسی آب کے نظام میں رکاوٹوں کو دور کرکے، شگافوں کو بند کرکے، مرمت اور دیکھ بھال کے ذریعے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کی جاسکتی ہے۔ یہ منصوبہ قدرتی نکاسی کے راستوں کو بہتر بناتا ہے، ماحولیاتی اثرات کو کم کرتا ہے، صحت مند ماحولیاتی نظام کو فروغ دیتا ہے اور پانی کے پائیدار استعمال میں اضافے کا سبب بنتا ہے ۔ اس موقع پر وزیر آبپاشی جام خان شورو اور ایم پی اے ارباب لطف نے بھی شرکاء سے خطاب کیا ۔سیکریٹری آبپاشی ظریف کھیڑو نے ایل بی او ڈی، اس کے مسائل اور ان کے حل پر بنائی گئی خصوصی دستاویزی فلم پیش کی۔ قبل ازیں وزیراعلیٰ سندھ نے ایل بی او ڈی سائفونز کا افتتاح کیا تاکہ ڈھورو پران سے شاکیر ڈنڈھا کے پرانے قدرتی گزرگاہوں کی بحالی اور آر ڈی 210 میں اسپائنل ایسکیپ ریگولیٹر اور ڈھورو پران کی شکور جھیل تک بحالی کے کام کو جلد سے جلد مکمل کیاجاسکے۔ وزیر آبپاشی جام خان شورو نے وزیراعلیٰ سندھ کو محکمہ آبپاشی کی جانب سے کئے گئے تکنیکی کاموں کے بارے میں بریفنگ دی۔
0 تبصرے