شہزاد ایک عام سا نوجوان تھا، جو دہلی کی ایک پرانی کتابوں کی دکان میں کام کرتا تھا۔ دن بھر پرانی کتابوں کی گرد میں لپٹے لفظوں کے بیچ رہنے والے شہزاد کی زندگی میں کچھ بھی خاص نہ تھا—سوائے اُس ایک شام کے۔
وہ شام جب وہ دکان بند کر رہا تھا، اچانک دکان کا دروازہ کھلا۔ ہلکی بارش کے قطروں کے ساتھ وہ اندر داخل ہوئی—
سیاہ ساڑھی، بھیگے بال، اور آنکھوں میں وہ گہرا دکھ جو لفظوں میں بیان نہ ہو سکے۔
"کیا آپ کے پاس 'محبت کا آخری خط' ہے؟"
اُس نے آہستہ آواز میں پوچھا۔
شہزاد چونکا۔
یہ کتاب صرف تین کاپیاں ہی شائع ہوئیں تھیں۔ اور ایک… اس کے پاس موجود تھی — دکان کے سب سے پچھلے کونے میں، بند الماری کے اندر۔
"آپ کو اس کتاب کے بارے میں کیسے معلوم؟"
"کیونکہ… یہ میری لکھی ہوئی ہے۔"
اُس نے کہا، اور ایک پھٹی ہوئی تصویر میز پر رکھ دی۔ تصویر میں وہ اور… شہزاد کے والد!
شہزاد کے ہاتھوں سے تصویر گر گئی۔ اس کی ماں ہمیشہ کہتی تھی:
"تمھارے والد کی زندگی میں ایک راز دفن ہے، جو کبھی نہ کھل سکا۔"
اب… وہ راز اُس عورت کے ساتھ سامنے کھڑا تھا۔
محبت، جھوٹ، فریب، اور برسوں پرانا خط — جو شاید کبھی کسی نے پڑھا ہی نہیں۔
0 تبصرے