رات کا پچھلا پہر تھا سردی بہت شدید تھی. گرم گرم سوپ پینے کے بعد بھی گاڑی میں کافی ٹھنڈ لگ رہی تھی. ہیٹر چلایا کہ پاؤں ذرا گرم ہو جائیں ایسے میں گاڑی کو گرم کرنے کے لیے بھی دو چار منٹ لگ گئے باہر کچھ نظر نہیں ارہا تھا دھند ہی دھند تھی کالر کو گردن کے ساتھ کھڑا کر دیا اور گاڑی کا سلف سٹارٹ کرنے کے لیےگمھایا۔ لیکن ابھی وہ سٹارٹ نہیں ہوئی دو چار منٹ اور گزار دیئے اور پھر گاڑی سٹارٹ ہو گئی گیٹ کا بیریئر کراس کرتے ہی سردی سے دھیان ہٹانے کے لیے ایف ایم ریڈیو لگا دیا اناؤنسر بتا رہی تھی کہ ائیے اپ کو باقی صدیقی کی غزل فریدہ خانم کی اواز میں سناتے ہیں۔
داغِ دل ھم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیے جلانے لگے
ابھی خیبر پلازہ سے مڑ کر گاڑی سیدھی ہی کی تھی کہ غزل ختم ہو گئی لیکن ایک شعر میں بار بار خود گنگنا شروع ہو گیا
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
میں نے یہ شعر بار بار پڑھا اور سوچا کہ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں ڈھول پاس بجے تو شور لگتا ہے بے ہنگم لگتا ہے کان کھاتا ہے لیکن چلتے چلتے خیال انے لگا کہ خود فریبی بہت ہی خوفناک چیز ہے ،پھر یہ خیال آیا کہ لوگ خود فریبی کا شکار کیوں ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں چار ہزار دو سومذاہب موجود ہیں اور سب مزاہب میں دھوکہ دینا جرم ہے۔ خود فریبی کا مطلب بھی دھوکہ ہے۔دھوکہ کسی بھی طرح کا ہو دھوکا تو دھوکہ ہے کسی کے ساتھ فراڈ کرنا بھی دھوکہ ہے،خود فریبی دھوکہ ہے ریت پر دور سے پانی کا گمان ہونا سراب ہے اور یہ بھی ایک دھوکہ ہے لیکن میں بار بار شعر کو پڑھتا گیا تو ایک شکل میرے ذہن میں اور طرح کی بنتی چلی گئی کہ ایک دھوکہ وہ ہے جو لوگ دوسروں کو دیتے ہیں لیکن خود فریبی کا دھوکہ بھی عجیب ہے کہ یہ انسان اپنے اپ کو دھوکہ دیتا ہے۔ مطلب بڑے مزے کہ بات ہے کہ انسان اپنے اپکو کو دھوکہ دیکر خوشی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔کہ ایک تو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوا اور دوسرا دھوکہ دیا بھی اپنی ذات کو۔ اگر غور کیا جائے تو یہ بڑی عجیب سی بات ہے کہ خود کو دھوکا دیکر خوش ہوتے ہیں۔
اکثر ہم نے سنا اور دیکھا ہے کہ فلاں شخص نے فلاں شخص کو دھوکہ دیا۔ لیکن اجکل کے دور میں دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ بھی وفاداری نہیں کرتے۔ اور خود فریبی کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس خود فریبی میں زیادہ تر 15 سال سے لیکر 50 سال کےلوگ جھکڑے ہوئے ہیں۔ میں بظاہر تو گاڑی چلا رہا تھا لیکن ذہن الجھ گیا تھا کہ یہ خود فریبی کسی بھی شکل میں ہو سکتی ہےپھوں پھاں، شیخیاں مارنے، لنڈے کے ستھرے کپڑے پہن کر انکل، کزن کے تحفہ بتاتے ہیں،لنڈا بازار سے بڑی بڑی کمپنیوں کے جوگر لے کر لوگوں کو ان کمپنیوں کے نام بتاتے پھرتے ہیںسوشل میڈیا کی امد کے بعد تو خود فریبی اور خود نمائی نے حد کر دی گاڑی کسی کی ہوتی ہے ہوٹل کسی کا ہوتا ہے شہر کسی کا ہوتا ہے حد تو یہ ہے کہ بڑے بڑے شاپنگ سینٹر میں جا کر بڑے بڑے برینڈ کے کپڑے چیک کر کے پھر ان کے ساتھ تصویریں بنانا اسے سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارم پر شائع کرنا کسی کی دعوت پر کسی ہوٹل میں جا کے کھانا کھانا تو بڑے برانڈ کے بڑے ہوٹل کے ٹشو پیپر اٹھا کے جیب میں رکھ لینا اور لوگوں کے سامنے اپنی جیب سے وہاں کا ٹشو پیپر نکال کے ہاتھ منہ صاف کرنا بڑے بڑے ہوٹلوں کے نام لے کر وہاں پہ ہونے والی تقریبات میں شامل ہونے کے لیے دعوت ناموں کے حصول کے لیے ترلے منت کرنا اور پھر وہاں جا کے تصویروں کے انبار جمع کر لینا وزیروں، مشیروں، سینٹروں اور سفیروں کے ساتھ تصویر کھنچانے کا جنوں بھی خود فریبیوں کے شکار لوگوں میں بے تحاشا ہے ۔تصویر کھنچاؤ گروپ کے یہ ممبران کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور تصویر کھینچ کر فیس بک یا کسی بھی سوشل میڈیا کی زینت بنا دیتے ہیں بڑے ہوٹلوں میں ہونے والی تقریبات سے پہلے یا بعد میں اسٹیج پہ جا کے تصویریں بناتے ہیں حد ہے ویسے خود فریبی کرتے ہوئے کسی قسم کی پشیمانی کا شکاربھی نہیں ہوتے بس دھوکہ دینے والا نہ تو دوسروں کے دکھ کو برداشت کرتا ہے اور نہ ہی اسے اپنے ساتھ کی گئ خود فریبی پر رحم آتا ہے۔ ، مالی، جذباتی، یا پھر ذاتی سطح پر۔ لیکن سوال یہ ہے کہ لوگ خودفریبی کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟خود فریبی دھوکہ اور ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان اپنے آپ کو حقیقت سے دور کر کے، وہ سچائیاں نظرانداز کرتا ہے جو اس کی زندگی اور فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ یہ ایک ذہنی حالت ہے جس میں انسان اپنے آپ کو جھوٹ بول کر تسلی دیتا ہے یا ایسی باتوں کو قبول کرتا ہے جو حقیقت کے برعکس ہوتی ہیں، تاکہ وہ اپنے موجودہ حالات سے بچ سکے یا خود کو کچھ لمحے کے لیے سکون دے سکے۔(سکون بھی دھوکے والا)خود فریبی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انسان خود کو دھوکہ دینے کے عمل میں مبتلا ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ اپنے اصل مسائل کا سامنا کرنے سے گریز کرتا ہے۔ اس میں ایک لمحے کی راحت تو مل سکتی ہے، لیکن یہ لمبے عرصے میں انسان کی ذہنی اور جذباتی صحت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ خود فریبی کے ذریعے ہم اپنے احساسات، فیصلوں اور زندگی کے بارے میں جو حقیقت ہے، اسے تسلیم نہیں کرتے۔اور پھر جب انسان حقیقت کو جھوٹ کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کے اندر خود اعتمادی کی کمی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ وہ اپنے حقیقی حالات سے بھاگ رہا ہوتا ہے۔ خود فریبی کے سبب انسان اپنے رشتہ داروں، دوستوں یا ساتھیوں کے ساتھ سچائی سے دور ہوتا ہے، جس سے رشتوں میں کشیدگی آتی ہے۔ایسے انسان میں خود فریبی سے ذہنی تناؤ اور اضطراب بڑھ جاتے ہیں، کیونکہ انسان مسلسل خود کو جھوٹ بولنے اور حقیقت سے منحرف رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ سب سے پہلا قدم خود کو سمجھنا ہے۔ انسان کو اپنی حقیقت کو تسلیم کرنا سیکھنا چاہئے تاکہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے حقیقت کی بنیاد پر کر سکے۔
خود فریبی سے بچنے کے لیے ہمیں اپنے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ سچائی کو تسلیم کرنا اور اس کے حل کے لیے عملی اقدامات کرنا ضروری ہیں۔خود فریبی ایک مختصر مدت کے لیے سکون دے سکتی ہے، لیکن طویل عرصے میں یہ ایک دھوکہ بن جاتی ہے جو انسان کی ذہنی اور جذباتی صحت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ہمیں سچائی کا سامنا کرنے اور خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم اپنی زندگی کو صحیح سمت میں لے جا سکیں۔سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انسان فطری طور پر اعتماد کرنے والا ہوتا ہے۔ جب ہم کسی شخص یا کسی پیشکش پر بھروسہ کرتے ہیں، تو ہم اپنی سچائی اور ایمانداری کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ ہمارے اندر کی نیک نیتی کا مظہر ہوتا ہے۔ لیکن جب کوئی فریب دینے والا شخص ہمارے اعتماد کا فائدہ اٹھاتا ہے، تو ہم اس کا شکار بن جاتے ہیں۔ایک اور وجہ یہ ہے کہ اکثر لوگ اپنے جذبات اور خواہشات کی بنا پر فیصلے کرتے ہیں، نہ کہ منطقی اور حقیقت پسندانہ بنیادوں پر۔ ہمیں فریب سے بچنے کے لیے اپنے فیصلوں کو ہمیشہ عقل و حکمت کی روشنی میں کرنا چاہیے،
اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔ کسی بھی شخص یا چیز پر اندھا اعتماد کرنے سے پہلے، ہمیں اپنی عقل و بصیرت کو بروئے کار لانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ، ہمیں اپنی معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے فریب کے شکار ہونے سے بچنے کے لیے خود کو مضبوط بنانا ہوگا۔ خود فریبی ایک ایسا نفسیاتی عمل ہے جس میں انسان اپنے آپ کو حقیقت سے دور رکھتے ہوئے کسی خیالی یا جھوٹی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ عمل زیادہ تر اس وقت سامنے آتا ہے جب انسان اپنی مشکلات، کمزوریوں یا ناکامیوں سے نمٹنے کے لیے خود کو جھوٹ بول کر تسلی دیتا ہے۔ اور خدا لگتی تو یہ ھےکہ خود فریبی احساس برتری نہیں بلکہ خود فریب لوگ اپنے احساس کمتری کو اس احساس برتری میں چھپانے کے لیے اتنے جھوٹ بولتے ہیں کہ ان کا قد ان کے بولے ہوئے جھوٹ سے چھوٹا ہو جاتا ہے وہ اتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ اپنے حصارسے کمتری کو فنا کرنے کے لیے برتر ہونے کے لیے برتری دکھانے کے لیے جھوٹ جھوٹ اور اس قدر جھوٹ بولتے ہیں کہ ان کے وزن سے ان کے جھوٹ زیادہ ہو جاتے ہیں ۔
خود فریبی کا شکار لوگ محفلوں میں جانے سے کتراتے ہیں لوگوں کے پاس بیٹھنے سے شرماتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ان دوستوں کے سچ سننے کا حوصلہ نہیں ہوتا اور وہ اپنے جھوٹ کو یا اپنی خود فریبی کی حصار کو توڑ کر سچی باتیں نہیں کر سکتے اس لیے چھپتے پھرتے ہیں ایک اور بات سب سے اہم بات خود فریبی کا شکار افراد ہمیشہ شرمندگی اٹھاتے ہیں کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی ان کی ملمہ سازی پکڑی جاتی ہے دھوکہ یا خود فریبی کو بہت خوبصورتی سے ایک فلم ڈنکی میں شاہ رخ خان اور اس کے ایک ساتھی فنکار پر فلمایا گیا ہے ایک نوجوان لندن پہنچ جاتا ہے اور اپنے دوستوں کو وہاں سے طرح طرح کی تصویریں بھیجتا ہے شاہ رخ خان کے ساتھ دو اور لوگ ڈنکی مار کے لندن پہنچتے ہیں تو ایک جگہ ان کا وہی دوست مجسمہ بنے کھڑا ہوتا ہے
لوگ سامنے پڑی ٹوپی میں پیسے ڈال رہے ہوتے ہیں تینوں اسے دیکھتے ہیں چھیڑتے ہیں ملتے ہیں شاہ رخ اپنے بیگ سے اس کے گھر کی تصویریں نکالتا ہے جو اس نے اپنی ماں کو اور اپنے دوستوں کو بھیجی تھیں جب شاہ رخ خان اپنے اس دوست کی رہائش دیکھتا ہے تو اس کمرےکے اندر پہلے سے 20 لوگ اوپر نیچے رکھے بستروں پر بیڈ پر سو رہے ہوتے ہیں اس موقع پر شاہ رخ پوچھتا ہے کہ یہ تم تصویروں میں جو اس گھر کی تصویریں بھیج بھیج کے ماں کو اور ہمیں تسلیاں دیتے تھے وہ کہاں ہے تو وہ لڑکا بولتا ہے میں بھیک مانگ کے اور جگہ جگہ وائپر لگا کے 600 پاؤنڈ کماتا ہوں 500 گھر بھیجتا ہوں ماں خوش ہو جاتی ہے گلی محلے والے اس کی عزت کرنے لگتے ہیں میں سو سے یہاں گزارا کرتا ہوں اگر میں اس گھر کی شکل بھیج دوں تو میری ماں دکھ سے مر جائے گی.....
لیکن سوچ کا دھارا یہ ہے کہ ایسا کام کیوں کیا جائے ایسے دھوکہ کیوں دیا جائے اپنے اپ کو دھوکا اپنی ماں کو دھوکہ اپنی بہن بھائی کو دھوکا اپنے یار دوستوں کو دھوکا حقیقت پسندی کی طرف انا چاہیے حقیقی زندگی کا لطف اٹھانا چاہیے اس خود فریبی کے حساب سے نکل کر عاجزی انکساری محنت لگن اور اپنے اپنے کام سے َایماندارانہ محبت کی جائے ترقی بھی مل جاتی ہے منزل بھی ملتی ہے اور ندامت بھی نہیں ہوتی۔ 03459733347
0 تبصرے