سندھ، ہند سے قدیم تہذیب، تاریخ اور حقیقت

حسن پٹھان

سندھ، ہند سے قدیم تہذیب، تاریخ اور حقیقت

بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کا یہ بیان کہ “سندھ تہذیبی طور پر بھارت کا حصہ ہے اور ممکن ہے کہ کل دوبارہ بھارت میں شامل ہو جائے” دراصل تاریخ سے لاعلمی، جغرافیے کی غلط تفہیم اور سفارتی غیر سنجیدگی کا مجموعہ ہے۔ یہ بیان اس لیے بھی مضحکہ خیز ہے کہ سندھ کا وجود اُن سیاسی اکائیوں سے صدیوں پہلے کا ہے جنہیں آج “ہندوستان” کہا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر “ہند” کا سیاسی تصور موریہ سلطنت (تقریباً 321 قبل مسیح) کے بعد ابھرا، جبکہ “ہندوستان” جدید ریاستی شناخت کے طور پر صرف برطانوی دور میں بنی۔ اس کے مقابلے میں سندھ کا ذکر رِگ وید, مہا بھارت اور ہیرودوتس (Herodotus) کے تاریخی حوالاجات میں ایک الگ خطے کے طور پر ملتا ہے۔ یونانی جغرافیہ دان اسٹرابو نے پہلی صدی قبل مسیح میں سندھ (Indus Region) کو ایک آزاد، جداگانہ خطہ قرار دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سندھ بطور تہذیب و خطہ اُس وقت بھی موجود تھا جب “ہندوستان” کا مفہوم تک واضح نہ تھا۔ پانچ ہزار سالہ سندھ کی تہذیب موئن جو دڑو اور ہڑپہ کے ساتھ انسانی تاریخ کے ابتدائی شہری نظاموں میں شمار ہوتی ہے۔ مگر کسی تہذیب کا وجود کسی جدید ریاست کی ملکیت نہیں بنتا۔ اگر قدیم تہذیبوں کی بنیاد پر نقشے بدلے جائیں تو پھر یونان مصر پر، ایران میسوپوٹیمیا پر، اور چین نصف ایشیا پر تاریخی دعویٰ کرسکتا ہے۔ دنیا میں کوئی باشعور ریاست تہذیبی ورثے کو سیاسی قبضے کا جواز نہیں بناتی۔ سندھ کی ریاستی تاریخ بھارتی دعوے کے برعکس کھڑی ہے۔ سومرا، سمہ اور تالپور حکمرانوں نے سندھ کو صدیوں ایک آزاد ریاست کے طور پر چلایا، جس کا انتظام کبھی “مرکزی ہندوستانی بادشاہت” کے تابع نہیں رہا۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ 1843 تک سندھ نہ تو برطانوی ہندوستان کا حصہ تھا نہ کسی “ہند” نامی سیاسی وحدت کا۔ سندھ اپنی زمین، نظام اور تجارت کے ساتھ ایک مکمل خودمختار آزاد خطہ تھا۔ برطانوی ہندوستان کے نوآبادیاتی دور 1936 میں سندھ نے بمبئی پریزیڈنسی سے علیحدگی کی تحریک جیت کر اپنی شناخت بحال کی۔ یہ فیصلہ ثقافتی جبر، مالی ناانصافی اور سیاسی استحصال کے خلاف تھا۔ اگر سندھ تاریخی طور پر بھارت سے جڑا ہوتا تو سندھ کے رہنماؤں نے دہلی میں یہ مقدمہ کیوں لڑا کہ “ہماری زبان، تاریخ اور مزاج بمبئی سرکار کے طرح نہیں”؟ راج ناتھ کا کہنا کہ “سرحدیں بدلتی ہیں” سطحی سیاست ضرور ہے مگر بین الاقوامی قانون اس کی نفی کرتا ہے۔ موجودہ سرحدیں اقوامِ متحدہ، عالمی معاہدات اور دو ایٹمی ریاستوں کی تسلیم شدہ جغرافیائی حیثیت کے مطابق قائم ہیں۔ خود بھارت کشمیر کے معاملے میں انہی اصولوں کا سہارا لیتا ہے، مگر سندھ کے معاملے میں انہیں یکسر نظرانداز کرنا سفارتی منافقت ہے۔ پاکستان بننے سے قبل سب سے پہلے سندھ اسمبلی نے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی۔ یہ فیصلہ کسی جوش کے تحت نہیں بلکہ اپنی تاریخی شناخت، معاشی خود مختاری اور سیاسی مستقبل کے تحفظ کے لیے تھا۔ سچ یہ ہے کہ سندھ نہ کسی تہذیبی خواہش کا محتاج ہے نہ کسی سیاسی خواب کا۔ اس کا وجود “ہند” سے پہلے بھی تھا، “ہندوستان” سے پہلے بھی، اور آج بھی یہ پاکستان کی ایک باشعور، تاریخی اور خوددار اکائی ہے۔ بھارتی وزیرِ دفاع کا دعویٰ تاریخ کے ساتھ بددیانتی اور خطے کے امن کے ساتھ کھلواڑ ہے جس کی نہ کوئی بنیاد ہے، نہ وزن، نہ وقعت۔