مہاجر سیاست کے تاجر — نسل پرستی کا نیا بیانیہ اور سندھ دھرتی کے خلاف پرانا کھیل

تحرير؛ حسن پٹھان

مہاجر سیاست کے تاجر — نسل پرستی کا نیا بیانیہ اور سندھ دھرتی کے خلاف پرانا کھیل

سیاست میں اصول بدل جائیں تو کچھ افسوس نہیں ہوتا، لیکن جب سیاست کے نام پر شناختیں بیچی جائیں، نسل پرستی کو ہوا دی جائے، عوام کو تقسیم کیا جائے اور نفرت کو اقتدار کے راستے کا ایندھن بنا دیا جائے، تو پھر یہ مسئلہ محض سیاسی نہیں رہتا یہ معاشرتی بقا اور ریاستی سالمیت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ سندھ کی سیاست میں ’’مہاجر سیاست‘‘ کے کچھ تاجر برسوں سے اسی کھیل میں مصروف ہیں۔ ان کے لیے مہاجر شناخت، شہری حقوق اور کراچی کا نام صرف ایک نعرہ، ایک دباؤ کا ہتھیار اور ایک سیاسی سودا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عناصر نہ مہاجروں کے خیرخواہ ہیں، نہ کراچی کے محافظ، نہ سندھ کے دوست، ان کا واحد مفاد اقتدار ہے، جس کے لیے یہ جب چاہیں نیا نعرہ تراشتے ہیں، نئی نفرت تخلیق کرتے ہیں، اور نئی ڈیل کرتے ہیں.
سندھ کی سیاست میں ایک عرصے سے شہری اور دیہی آبادی کی مصنوعی تقسیم کو مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے انداز میں استعمال کیا، لیکن کچھ مخصوص گروہوں نے اسے محض سیاسی نہیں بلکہ نسلی شناخت کی لڑائی بنا کر پیش کیا۔ ’’مہاجر‘‘ کی دیوار کو یوں بلند کیا گیا جیسے باقی دوسری دشمن قومیں ہوں، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ سندھ دھرتی ہمیشہ کثیرالثقافتی، مشترکہ بقا، زبانوں کی ہم آہنگی اور میل جول کا گہوارہ رہی ہے۔ مگر جب سیاست اقتدار کی بھوک میں بدل جائے تو شناختیں ہتھیار بن جاتی ہیں۔ انہی سیاست دانوں نے مہاجریت کے نام پر ووٹ مانگے، پھر انہی ووٹوں کو وزارتوں، مشیروں اور ایوانی مراعات کے عوض نیلام کیا۔ کراچی کے مسائل کبھی ان کے ایجنڈے کا حصہ نہیں رہے، صرف کراچی کا نام ان کی تجارت کا سب سے منافع بخش برانڈ رہا ہے۔
اب حالیہ بیانیہ جسے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال نے آگے بڑھایا ہے، اس کی اصل بنیاد بھی وہی پرانا کھیل ہے، ’’18ویں ترمیم ختم ہو سکتی ہے‘‘ ’’نیا صوبہ بن سکتا ہے‘‘
’’سندھ میں نئی تقسیم ناگزیر ہے‘‘ ان بیانات میں آئینی فہم کم اور سیاسی جارحیت زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ 18ویں ترمیم پر سوال اٹھانا محض ایک سیاسی تگ و دو نہیں، بلکہ سندھ دھرتی کی وحدت، تاریخی شناخت اور عوامی جذبات کو چیلنج کرنا ہے۔ یہ کہنا کہ ’’پیپلز پارٹی نے بلدیاتی نظام پر بات نہ کی تو ترمیم ختم ہو جائے گی‘‘ حقیقت میں عوامی نمائندگی کی بات نہیں، بلکہ چند سیاست دانوں کی وہ خواہش ہے جو ہر صورت خود کو سیاسی عمل میں اہم ثابت کرنا چاہتی ہے۔ یہ بیانیہ سیاسی نہیں — نسلی ہے۔ یہ تجزیاتی نہیں — تقسیمی ہے۔ یہ عوامی مفاد سے نہیں — ذاتی اقتدار سے بندھا ہے۔
بلدیاتی نظام کے نام پر پیش کی جانے والی ترامیم دراصل کراچی کے عوام کے مسائل پر سنجیدہ مکالمہ نہیں بلکہ سیاسی بلیک میلنگ کا حربہ ہیں۔ یہ وہی رہنما ہیں جو ہر حکومت میں شریک رہے، کبھی ق لیگ کے اتحادی، کبھی پیپلز پارٹی کے ساتھ، کبھی تحریک انصاف کا حصہ، کبھی ن مسلم لیگ، اور ہر بار وزارتوں اور مراعات کے ساتھ خاموش رہے۔ مجالسِ عام میں للکار سنائی دیتی تھی مگر اسمبلی کے اندر خاموشی ان کا خاصہ رہی۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ طبقات اتنے ہی شہری حقوق کے چیمپئن تھے تو ہر دور میں اقتدار ملنے کے باوجود کراچی کیوں ڈوبا؟ گندگی کیوں نہ صاف ہوئی؟ پانی کا بحران کیوں برقرار رہا؟ ٹرانسپورٹ کیوں بوسیدہ ہوئی؟ اور سب سے بڑھ کر، مہاجر عوام کی شناخت کیوں ایک بار پھر نفرت کی تجارت میں بدلی جاتی رہی؟
اسی تناظر میں ایم کیو ایم پاکستان کے چیئرمین خالد مقبول صدیقی کی حالیہ پریس کانفرنس بھی اسی سیاسی تسلسل کا ایک نیا باب ہے، جس میں انہوں نے ’’نئے صوبے‘‘، ’’بلدیاتی اداروں کی مضبوطی‘‘ اور ’’آئینی ترامیم‘‘ کے نام پر عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا، “17 سال کے قبضے کو اب ختم ہونا چاہیے... کراچی کے مستقبل پر شب خون مارا جا رہا ہے... ماسٹر پلان کو کرپشن میں بدلا جا رہا ہے... کراچی کے ترقیاتی کاموں کو ہمارے ایم این ایز اور ایم پی ایز مانیٹر کر رہے ہیں… آئین کا آرٹیکل 239 نئے صوبے بنانے کی اجازت دیتا ہے… اگر عدالتیں بھی انصاف نہ دیں تو ہم سڑکوں پر جائیں گے… کراچی سندھ کے بجٹ کا 97 فیصد دیتا ہے…” یہ بیانات بھی دراصل اسی پرانی لسانی تقسیم کو تازہ دم کرتے ہیں جسے ماضی میں سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خالد مقبول صدیقی نے 18ویں ترمیم کے خاتمے کی تردید کرتے ہوئے اس پر ’’مکمل عملدرآمد‘‘ کا مطالبہ کیا، مگر اس بیان کا سیاسی مفہوم پھر بھی وہی ہے، صوبائی ڈھانچے، مالی اختیارات اور انتظامی حدود پر دوبارہ بحث چھیڑ کر سندھ کے اندر ایک نئی تقسیم کا ماحول پیدا کیا جائے۔
یہ صرف مہاجر سیاست نہیں، بلکہ سندھ مخالف سیاست ہے۔ سندھ کی شناخت کو چیلنج کرنا، اسے ٹکڑوں میں بانٹنے کی بات کرنا، شہری، دیہی تقسیم کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، یہ سب سندھ دھرتی کے خلاف کھلی جارحیت کے مترادف ہے۔ مصطفیٰ کمال کا ’’کراچی دودھ دینے والی گائے‘‘ والا جملہ ہو یا خالد مقبول صدیقی کا ’’کراچی کا شب خون‘‘ والا بیان، دونوں میں وہی بنیادی سوچ جھلکتی ہے، کراچی اور سندھ دو الگ دنیائیں ہیں جیسے یہ سوچ نہ صرف غلط ہے بلکہ سندھ کے لاکھوں شہریوں کی تذلیل بھی ہے۔ یہی وہ بیانیہ ہے جسے سیاسی طور پر اس لیے اہم بنایا جاتا ہے تاکہ شہری ووٹ بینک دوبارہ منظم ہو، محرومی کی نفسیات سے فائدہ اٹھایا جا سکے، اور نفرت کے ذریعے سیاسی اجارہ داری قائم رکھی جا سکے۔ یہ سیاست صرف موقع پرستی نہیں بلکہ نسلی تعصب کی باقاعدہ انجینئرنگ ہے۔ رہنما جانتے ہیں کہ کراچی کے مسائل حقیقی ہیں، مگر ان مسائل کا حل پیش کرنے کے بجائے شناخت کو بھڑکاتے ہیں تاکہ غصہ اور محرومی سیاسی طاقت میں بدل سکے۔ یہ بیانیہ سندھ کے مستقبل کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ یہ آگ صرف شہر نہیں جلاتی، نسلیں جلاتی ہے. یہ رہنما پارٹیاں بدلنے میں اس قدر ماہر ہیں کہ ان کی سیاسی سمت موسم کی طرح بدل جاتی ہے۔ کبھی ایم کیو ایم پاکستان، کبھی پی ایس پی، کبھی بحالی کمیٹی، کبھی اتحاد، کبھی نیا دھڑا۔ مگر عوام کے مسائل وہیں کے وہیں۔ سیاسی جماعتیں اپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہیں، عوامی مسائل نہیں۔شکلیں بدلتی رہتی ہیں، نعرے نہیں۔ اتحاد بنتے بگڑتے رہتے، ہیں، کردار وہی رہتا ہے۔ یہ لوگ ہر بار کراچی کو بیچ کر یہی کہتے ہیں. "ہم تو آپ کے خیرخواہ ہیں!" مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اقتدار کے مستقل بیوپاری ہیں۔
آج سندھ کو درپیش اصل مسئلہ یہ نہیں کہ کون سی جماعت کون سا نعرہ لگا رہی ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ کچھ سیاسی عناصر لسانی شناخت کو دوبارہ زندہ کر کے سندھ کے شہری اور دیہی عوام کے درمیان نئی خلیج پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ وہی کھیل ہے جس نے ماضی میں نفرت، تشدد اور بے امنی کی بنیاد رکھی. یہ رہنما سندھ کے نہیں، اقتدار کے وفادار ہیں۔ یہ مہاجر عوام کے نہیں، اپنی جماعتی سیاست کے ترجمان ہیں۔ اور یہ کراچی کے مسائل حل کرنے میں نہیں بلکہ انہی مسائل سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ کراچی ہو یا حیدرآباد، سکھر ہو یا نواب شاہ، لاڑکانہ ہو یا میرپور خاص، یا ٹھٹہ، بدین، گھوٹکی سندھ دھرتی ایک ہے۔ اس کی وحدت پر حملہ دراصل ہر شہری کے مستقبل پر حملہ ہے۔ لہٰذا اس تقسیم کو پہچاننا اور ردّ کرنا سندھ کے ہر باسی کی ذمہ داری ہے۔