سعودی عرب اور جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک پاکستان کے درمیان بدھ کو ہونے والے ایک باہمی سکیورٹی معاہدے پر ناصرف انڈین حکومت نے اپنا ردعمل دیا ہے بلکہ ملک کے دفاعی ماہرین بھی اس معاہدے پر بات کرتے اور اس پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان یہ سکیورٹی معاہدہ اسرائیل کی جانب سے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر حملے کے بعد طے پایا ہے اور پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر دیگر عرب ممالک بھی ایسا کوئی اشارہ دیتے ہیں، تو جیسا باہمی معاہدہ سعودی عرب کے ساتھ ہوا ہے پاکستان باقی (ممالک) کو بھی اس میں شامل کرنے پر غور کر سکتا ہے۔
اس معاہدے کو نہ صرف دونوں ممالک کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے بلکہ ماہرین کے مطابق مستقبل میں اِس کے مغربی ایشیا اور جنوبی ایشیا پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
سعودی عرب سے ہونے والے معاہدے کے بعد جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کسی بھی جارحیت کے خلاف مل کر کام کریں گے اور اگر کسی بھی ملک کے خلاف جارحیت کو دونوں ممالک کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔
اگرچہ اس معاہدے کی زیادہ تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئی ہیں تاہم پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کی کوئی ذیلی یا خفیہ شرائط نہیں ہیں
انڈیا کے لیے پریشانی کی بات کیا ہے؟
اس معاہدے کے بعد انڈیا میں پوچھا جانے والا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر انڈیا مستقبل میں پاکستان کے خلاف ’آپریشن سندور‘ جیسا کوئی اقدام کرتا ہے تو کیا سعودی عرب پاکستان کا ساتھ دے گا؟
یہی سوال جب ہم نے سعودی عرب میں انڈیا کے سابق سفیر تلمیز احمد سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’فی الحال ایسا نہیں لگتا کہ یہ معاہدہ انڈیا کے لیے کوئی بڑا دھچکا ہے، لیکن اگر ہم اسے طویل مدت میں دیکھیں تو یہ انڈیا کے لیے کسی بھی طرح سے اچھا نہیں ہے۔‘
تلمیز احمد کہتے ہیں کہ ’پاکستان مغربی ایشیا میں بہت زیادہ متعلقہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب انڈیا فی الحال کہیں نظر نہیں آتا۔ خلیجی ممالک اپنی سلامتی کے لیے پاکستان، ترکی اور چین کی طرف دیکھ رہے ہیں، اور یہ تینوں ممالک اب خطے میں بہت اہم ہو چکے ہیں۔ آپریشن سندور کے دوران بھی یہ تینوں ممالک انڈیا کے خلاف صف آرا نظر آئے، اس لیے یہ اگر مستقبل کی بات کی جائے تو یقینی طور پر یہ انڈیا کے لیے ایک دھچکا ہو سکتا ہے۔‘
جنوبی ایشیائی سیاست کے تجزیہ کار مائیکل کوگل مین نے اپنے ایک تبصرے میں کہا ہے کہ ’پاکستان نے نہ صرف ایک نئے باہمی سکیورٹی معاہدے پر دستخط کیے ہیں، بلکہ ایک ایسے ملک (سعودی عرب) کے ساتھ کیے گئے ہیں جو انڈیا کا بڑا شراکت دار بھی ہے۔ اگرچہ یہ معاہدہ مستقبل میں انڈیا کو پاکستان پر حملہ کرنے سے نہیں روک پائے گا، مگر یہ ضرور ہے کہ اس نے پاکستان میں ایک اچھی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے۔‘
انڈیا کی وزارت خارجہ نے بھی اس معاہدے پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ جمعرات کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم انڈیا کی قومی سلامتی کے ساتھ ساتھ علاقائی اور عالمی امن کے لیے اس معاہدے کے مضمرات کا مطالعہ کریں گے۔ حکومت انڈیا کے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔‘
ماہرین کے مطابق اس انڈین ردعمل کا واضح مطلب یہ ہے کہ انڈیا بھی اس معاہدے کے اپنے ملک کی قومی سلامتی پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کی بات کر رہا ہے۔ سابق انڈین سیکریٹری خارجہ کنول سبل اس صورتحال کو بہت سنگین سمجھتے ہیں۔
کنول سبل نے لکھا کہ ’اس معاہدے کا مطلب ہے کہ اب سعودی عرب کے فنڈز پاکستان کی فوج کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔ بظاہر پاکستان کُھلے عام عرب ممالک کو اسرائیل کے خلاف جوہری سکیورٹی فراہم کرنے کی بات کر رہا ہے۔‘
یاد رہے کہ الجزیرہ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف سے پوچھا گیا کہ کیا اس معاہدے کے تحت سعودی عرب کو پاکستان کے جوہری ہتھیاروں تک رسائی ہو گی؟
اس پر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’یہ معاہدہ دفاع کے لیے جس کا مقصد ہرگز جارحانہ نہیں۔۔۔ پاکستان کی دفاعی صلاحیتیں اس معاہدے کے تحت سعودی عرب کے لیے بھی کسی بھی ممکنہ صورتحال میں مدد گار ہوں گی، لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں آخری بار جوہری ہتھیاروں کا استمعال ہیروشیما پر ہوا تھا اور خوش قسمتی سے اب دنیا نیوکلئیر جنگوں سے محفوظ ہے اور اُمید کرتا ہوں کہ آئندہ بھی ایسا کچھ نہیں ہو گا۔‘
0 تبصرے