دنیا بھر میں انسانی جانوں کو لاحق ایک ایسے خطرے کی یاد دہانی ہے جو محض ایک بیماری نہیں بلکہ ایک سماجی، معاشی اور ذہنی چیلنج بھی ہے. اس دن کا مقصد لوگوں میں ایچ آئی وی (Human Immunodeficiency Virus) اور ایڈز (Acquired Immune Deficiency Syndrome) کے بارے میں شعور بیدار کرنا، غلط فہمیوں کا خاتمہ کرنا اور حفاظتی تدابیر سے آگاہی فراہم کرنا ہے. اس دوران سرخ ربن (Red Ribbon) کا استعمال یکجہتی، امید اور آگاہی کی علامت کے طور پر کیا جاتا ہے.
ایچ آئی وی ایک ایسا وائرس ہے جو انسان کے مدافعتی نظام پر حملہ کرتا ہے، خصوصاً سفید خون کے خلیات (CD4 Cells) کو نقصان پہنچاتا ہے. وقت گزرنے کے ساتھ یہ وائرس ان خلیات کو مکمل طور پر تباہ کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں انسانی جسم حکومتی بیماریوں کے خلاف لڑنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے. جب مدافعتی نظام شدید کمزور ہوجاتا ہے اور عام بیماری بھی جان لیوا بن جائے تو اسے ایڈز کہا جاتا ہے. ایڈز بذاتِ خود کوئی وائرس نہیں بلکہ ایچ آئی وی کی آخری اور خطرناک ترین اسٹیج ہے، یعنی وہ حالت جہاں جسم بالکل غیر محفوظ ہو جاتا ہے.
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایچ آئی وی کے حوالے سے شدید غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں. بہت سے لوگ اسے محض ایک "غیر اخلاقی سرگرمیوں" سے وابستہ مرض سمجھتے ہیں، جبکہ یہ وائرس مندرجہ ذیل وجوہ سے بھی منتقل ہو سکتا ہے، متاثرہ خون یا خون کی مصنوعات لگوانے سے، متاثرہ آلات میں انجکشن یا نشے کے ٹیکے مشترکہ طور پر استعمال کرنے سے، ماں سے بچے میں دورانِ حمل، پیدائش یا دودھ پلانے کے دوران، غیر محفوظ جنسی تعلق کے ذریعے، متاثرہ آلات سے ٹتو بنوانے یا سرجری کے دوران، یہ جاننا ضروری ہے کہ روزمرہ میل جول، ہاتھ ملانے، کھانا ساتھ کھانے یا گلے ملنے سے ایچ آئی وی نہیں پھیلتا. یہ وائرس چھونے، پانی، پسینے یا ہوا سے بھی منتقل نہیں ہوتا۔
پاکستان میں ایچ آئی وی کے کیسز مسلسل بڑھ رہے ہیں، خصوصاً اُن علاقوں میں جہاں صحت کی سہولیات کم ہیں یا آگاہی ناکافی ہے. سرنجوں کا بے دریغ استعمال، متاثرہ آلات کا غیر ذمہ دارانہ استعمال اور غربت و جہالت جیسے عوامل وائرس کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں. کئی افراد معاشرتی بدنامی کے خوف سے ٹیسٹ نہیں کرواتے، جو بیماری کے مزید پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے. آج ایچ آئی وی کی تشخیص بہت آسان ہے. سادہ اسکریننگ ٹیسٹ سے وائرس کی موجودگی کا اندازہ ہو جاتا ہے، بہت سے ممالک میں اس ٹیسٹ کی سہولت مفت فراہم کی جاتی ہے، پاکستان میں بھی متعدد اسپتالوں، این جی اوز اور حکومتی مراکز میں مفت اور خفیہ ٹیسٹنگ کی سہولیات موجود ہیں.
اگرچہ ایڈز کا مکمل علاج ابھی تک موجود نہیں، لیکن جدید دوائیں یعنی ARVs (Antiretroviral Therapy) وائرس کی رفتار کم کر کے مریض کی زندگی کو محفوظ اور طویل بنا دیتی ہیں. بروقت تشخیص اور مسلسل علاج سے مریض عام زندگی گزار سکتا ہے، اپنی نوکری، رشتے اور سماجی سرگرمیاں جاری رکھ سکتا ہے.
ایچ آئی وی سے بچاؤ ممکن ہے، لیکن اس کے لیے چند اقدامات ضروری ہیں، ہر قسم کی سرجری، ٹیسٹ یا ٹیکے لگواتے ہوئے ہمیشہ نئے اور محفوظ آلات کا استعمال یقینی بنائیں۔ نشہ کرنے والے افراد سرنج ہرگز شیئر نہ کریں. شادی سے قبل یا کسی بھی خدشے کی صورت میں ایچ آئی وی ٹیسٹ ضرور کروائیں. متاثرہ حاملہ خواتین بروقت علاج سے اپنے بچوں کو وائرس منتقل ہونے سے بچا سکتی ہیں. جنسی تعلقات میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور غیر ذمہ دارانہ رویوں سے پرہیز کریں.
ایچ آئی وی کے ساتھ جینے والے افراد کو ہمارے معاشرے میں شدید تعصب، شرمندگی اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے. یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ علاج اور ٹیسٹ کروانے سے گریز کرتے ہیں. یہ رویہ نہ صرف مریض کو ذہنی اذیت دیتا ہے بلکہ وائرس کو مزید پھیلنے میں مدد دیتا ہے. ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایچ آئی وی کوئی لعنت یا سزا نہیں بلکہ ایک طبی مسئلہ ہے. جیسے شوگر یا ہائپر ٹینشن کا مریض دوا کے ساتھ زندگی گزارتا ہے، اسی طرح ایچ آئی وی کے مریض بھی باقاعدگی سے علاج کرتے ہوئے زندگی گزار سکتے ہیں.
یکم دسمبر کو یہ دن منانے کا مقصد، عوام میں آگاہی پیدا کرنا، امتیازی رویوں کا خاتمہ، متاثرہ افراد سے یکجہتی ظاہر کرنا، تحقیق اور حفاظتی اقدامات کو فروغ دینا، حکومتوں اور اداروں کو بہتر پالیسی بنانے کی یاد دہانی کرنا ہے. اس سال بھی دنیا بھر میں سرخ ربن امید، ہمدردی اور انسانیت کی علامت کے طور پر پہنا جاتا ہے. ایڈز کا عالمی دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ خوف یا غلط فہمیوں کے بجائے علم، شعور اور ہمدردی کی ضرورت ہے. ایچ آئی وی کا مقابلہ صرف ادویات سے نہیں بلکہ سماجی رویوں کی تبدیلی، بروقت ٹیسٹنگ، محفوظ طرزِ زندگی اور متاثرہ افراد کے لیے عزت و قبولیت کے ذریعے کیا جا سکتا ہے. اگر ہم مل کر کوشش کریں تو یہ بیماری نہ صرف قابو میں آ سکتی ہے بلکہ ایک محفوظ معاشرہ تشکیل پانا بھی ممکن ہے.
0 تبصرے