27ویں آئینی ترمیم: اتفاقِ رائے کے بغیر منظور شدہ قانون—استحکام کی جانب قدم یا نیا آئینی بحران؟

حسن پٹھان

27ویں آئینی ترمیم: اتفاقِ رائے کے بغیر منظور شدہ قانون—استحکام کی جانب قدم یا نیا آئینی بحران؟

سینیٹ میں 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری ایک نہایت تیز رفتار اور سیاسی طور پر ہنگامہ خیز ماحول میں عمل میں آئی۔ وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل پیش کیا، جسے 64 ارکان کی حمایت سے منظور کر لیا گیا، جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔ یہ منظوری نہ صرف پارلیمانی اتفاقِ رائے کے فقدان کو نمایاں کرتی ہے بلکہ اس امر پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھاتی ہے کہ کیا اتنی بڑی آئینی تبدیلی کے لیے ضروری قومی مشاورت اور عوامی اتفاقِ رائے کا عمل مکمل ہوا تھا یا نہیں۔ آئینی عدالت کا قیام: عدلیہ کے ڈھانچے میں بڑی تبدیلی ترمیم کا سب سے نمایاں پہلو وفاقی آئینی عدالت (Federal Constitutional Court) کے قیام سے متعلق ہے۔ مجوزہ دفعات کے مطابق، آئینی نوعیت کے تمام معاملات میں حتمی فیصلہ اسی عدالت کے پاس ہوگا، اور اس کے احکامات تمام عدالتوں بشمول سپریم کورٹ پر لازم ہوں گے۔ یہ شق براہِ راست سپریم کورٹ کے آئینی دائرہ اختیار کو محدود کر سکتی ہے، جس سے عدلیہ کی خودمختاری اور اختیارات کے توازن پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ قانونی ماہرین کے مطابق، اس اقدام سے سپریم کورٹ عملاً ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی حیثیت کھو بیٹھے گی، جو عدالتی نظام کی بنیادی ساخت میں ایک انقلابی تبدیلی تصور کی جا رہی ہے۔ عسکری عہدوں کو آئینی تحفظ بل میں فوجی قیادت اور اعلیٰ آئینی عہدوں سے متعلق شقیں بھی شامل ہیں۔ مجوزہ ترامیم کے تحت “چیف آف ڈیفنس فورسز” یا “فیلڈ مارشل” جیسے عہدوں کو آئینی حیثیت دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ یہ اقدامات عسکری نظم و نسق میں بہتری کے لیے ضروری ہیں، تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم طاقت کو مزید مرکزیت دینے اور عسکری اداروں کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کے مترادف ہیں، جس سے سول و ملٹری توازن بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ ججوں کی تعیناتی اور تبادلے کا نیا نظام قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق، ججوں کی تقرری اور تبادلے کے نظام میں بھی نمایاں تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ اب ججوں کے تبادلے جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ہوں گے، اور اگر کوئی جج تبادلہ قبول نہ کرے تو اسے "ریٹائر تصور" کیا جائے گا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شق عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست اثر انداز ہو سکتی ہے، کیونکہ انتظامی بنیادوں پر ججوں کے تبادلے ان کی غیر جانبداری کو مشکوک بنا سکتے ہیں۔ وکلا برادری اور سابق جج صاحبان کی تشویش پاکستان کے ممتاز وکلا، سابق جج صاحبان اور سابق اٹارنی جنرلز نے اس ترمیم پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک مشترکہ خط میں مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے پر فوری طور پر فل کورٹ اجلاس بلایا جائے۔ ان کے مطابق، یہ ترمیم 1956 میں سپریم کورٹ کے قیام کے بعد سے عدلیہ کی آزادی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، کیونکہ یہ سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کر کے اسے ماتحت عدالت کے درجے پر لے آ سکتی ہے۔ وکلا برادری کا مؤقف ہے کہ سپریم کورٹ کو آئینی ترمیمات پر مشاورتی رائے دینے کا مکمل حق حاصل ہے، اور اس ترمیم سے انصاف کی فراہمی کا نظام بنیادی طور پر تبدیل ہو جائے گا۔ سیاسی تقسیم اور ممکنہ عدالتی چیلنج اپوزیشن کی غیر موجودگی میں منظور ہونے والی یہ ترمیم سیاسی پولرائزیشن کو مزید گہرا کر سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس قانون کو چیلنج کیا گیا تو عدالتوں میں ایک نیا قانونی بحران جنم لے سکتا ہے۔ تاہم، چونکہ مجوزہ ترمیم آئینی عدالت کے فیصلوں کو حتمی قرار دیتی ہے، اس لیے عدالتی جائزے (Judicial Review) کا دائرہ محدود ہو جائے گا — اور یہ صورتحال آئینی جمہوریت کے لیے ایک خطرناک نظیر ثابت ہو سکتی ہے۔ آئندہ کا راستہ: مشاورت، شفافیت اور توازن اتنی بڑی آئینی تبدیلی سے قبل تمام سیاسی جماعتوں، صوبوں، وکلا برادری اور سول سوسائٹی کو اعتماد میں لینا ناگزیر تھا۔ ججوں کی تقرری اور تبادلے کے نظام کو شفاف، میرٹ پر مبنی اور عدلیہ کی آزادی کے اصولوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سپریم کورٹ آئینی تشریح اور انصاف کی حتمی اتھارٹی کے طور پر برقرار رہے۔ چیف جسٹس کو چاہیے کہ وہ اس ترمیم کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ایک فل کورٹ اجلاس بلائیں تاکہ عدلیہ کا اجتماعی موقف قوم کے سامنے واضح ہو۔