کراچی - ماضی کے حقائق اور روشن مستقبل کی بنیاد

حسن پٹھان

کراچی - ماضی کے حقائق اور روشن مستقبل کی بنیاد

کراچی کے بارے میں ایک دیرینہ اور گمراہ کن بیانیہ بار بار دہرایا جاتا رہا ہے کہ قیامِ پاکستان سے قبل یہ شہر ایک ویران بستی تھا جسے بعد ازاں باہر سے آنے والے لوگوں نے آ کر آباد اور ترقی یافتہ بنایا۔ یہ تصور نہ صرف تاریخی حقائق کے منافی ہے بلکہ اس خطے کے مقامی باشندوں، تاجروں، محنت کشوں اور انتظامی ڈھانچے کی دہائیوں پر محیط جدوجہد سے ناواقفیت کا بھی ثبوت ہے۔ اگر کراچی کی تاریخ کو غیر جانب دار تحقیق اور مستند حوالہ جات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت پوری وضاحت سے سامنے آتی ہے کہ 1947 سے بہت پہلے کراچی برصغیر کے اہم، فعال اور ترقی یافتہ شہروں میں شمار ہوتا تھا۔
کراچی کی ترقی محض اتفاقیہ نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے جغرافیائی محلِ وقوع، قدرتی بندرگاہ، تجارتی سرگرمیوں اور منظم شہری انتظام کا کلیدی کردار تھا۔ انیسویں صدی کے وسط تک کراچی ایک فعال تجارتی مرکز بن چکا تھا جہاں مقامی اور بین الاقوامی سطح پر کاروبار فروغ پا رہا تھا۔ اس دور میں کراچی کی بندرگاہ نہ صرف برطانوی ہند کی معیشت کے لیے اہم تھی بلکہ وسطی ایشیا، ایران اور روس کی سمت تجارت کا ایک قدرتی دروازہ بھی سمجھی جاتی تھی۔
معروف ماہرِ شہری ترقی عارف حسن اپنی تحقیق میں واضح کرتے ہیں کہ 1856 سے 1872 کے مختصر عرصے میں کراچی کے تجارتی حجم میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی میں چیمبر آف کامرس کا قیام عمل میں آیا، ریل کا نظام متعارف ہوا اور شہر کو سندھ ر ریلوے، پنجاب اور شمالی ہند سے جوڑ دیا گیا۔ کپاس، گندم اور دیگر زرعی اجناس کی ترسیل نے کراچی کو ایک مضبوط معاشی مرکز بنا دیا۔ اسی معاشی سرگرمی کے نتیجے میں چند دہائیوں میں شہر کی آبادی دوگنی ہو گئی، جو کسی بھی شہر کی ترقی کا واضح اشاریہ ہوتی ہے۔
کراچی میں شہری سہولیات کا آغاز بھی بہت پہلے ہو چکا تھا۔ ٹرام سروس، تعلیمی ادارے، تجارتی منڈیاں اور بلدیاتی نظام اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ شہر منصوبہ بندی کے تحت ترقی کر رہا تھا۔ سندھ مدرسہ، ڈی جے سندھ کالج، ایمپریس مارکیٹ جیسے ادارے محض عمارتیں نہیں بلکہ ایک زندہ، متحرک اور تعلیم دوست معاشرے کی علامت تھے۔ یہ وہ ادارے تھے جنہوں نے نہ صرف مقامی آبادی بلکہ پورے خطے کے افراد کو علم، روزگار اور کاروبار کے مواقع فراہم کیے۔
برطانوی دور کے دیگر محققین کی تصانیف بھی اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہیں کہ کراچی ایک مضبوط شہری ڈھانچے کا حامل تھا۔ کسٹمز سے حاصل ہونے والی آمدنی، بندرگاہ کی وسعت، بلدیاتی کونسل کا قیام، عدالتی ادارے اور پانی کی فراہمی کے منصوبے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کراچی کو ایک جدید شہر کے طور پر ترقی دی جا رہی تھی۔ یہ تمام اقدامات کسی ویران یا غیر ترقی یافتہ بستی میں نہیں بلکہ ایک ابھرتے ہوئے شہری مرکز میں ہی ممکن ہوتے ہیں۔
جنگِ عظیم کے دوران کراچی کا فوجی اور لاجسٹک مرکز کے طور پر استعمال ہونا اس کی اسٹریٹجک اہمیت کو مزید نمایاں کرتا ہے۔ اگر کراچی محض ایک معمولی قصبہ ہوتا تو عالمی جنگ کے دوران اسے رسد اور فوجی سرگرمیوں کے لیے منتخب نہ کیا جاتا۔ یہ انتخاب خود اس بات کا ثبوت ہے کہ کراچی پہلے ہی مضبوط انفراسٹرکچر، بندرگاہی صلاحیت اور انتظامی نظم و ضبط رکھتا تھا۔
1947 میں جب برصغیر کی تاریخ کا سب سے بڑا انسانی انخلا ہوا تو کراچی پہلے سے ایک ترقی یافتہ، منظم اور فعال شہر تھا۔ یہاں آنے والے افراد نے ایک ایسے شہر میں قدم رکھا جو پہلے ہی تعلیم، تجارت، صنعت اور شہری سہولیات کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتا تھا۔ یہ حقیقت تسلیم کرنا ناگزیر ہے کہ مقامی آبادی نے نسلوں کی محنت سے اس شہر کو اس مقام تک پہنچایا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی کی تاریخ کو تعصب، نفرت یا سیاسی مفادات کے بجائے حقائق کی بنیاد پر سمجھا جائے۔ اس شہر کی ترقی کسی ایک گروہ یا دور کی مرہونِ منت نہیں بلکہ اجتماعی محنت، مقامی شعور اور تاریخی تسلسل کا نتیجہ ہے۔ کراچی کی پائیدار ترقی اسی وقت ممکن ہے جب ماضی کے حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے باہمی احترام، اتحاد اور یگانگت کو فروغ دیا جائے۔ کراچی کی اصل کہانی یہی ہے، اور یہی اس شہر کے روشن مستقبل کی بنیاد بھی بن سکتی ہے۔