یکم مئی کا دن ہر سال آتا ہے اور ہر سال اس دن ہمارے سکول، کالج، سرکاری دفاتر، ادارے، مارکیٹیں اور دُکانیں بند. ہوتی ہین اور نعرہ لگایا جاتاہے کہ یہ محنت کشوں کا دن ہے اور دہقانوں کا دن ہے، معماروں کا دن ہے، دنکاروں کا دن ہے اور مزدوروں کا دن ہے۔ تمام مزدور اس دن فیکٹریوں اور ملوں کو بند کرکے جلوس کی شکل میں سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور پُرامن جلوس بھی ہوتے ہیں۔ نعرے بازی اور ہنگامے بھی ہوتے ہیں اور اس دن کو منانے کو مسلمان مزدور بھی اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ اس دن کا مسلمانوں کی ثقافت اور اسلامی روایات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ جس طرح دیگر غیراسلامی دن جیسے بسنت، ویلنٹائن ڈے، اپریل فول وغیرہ ہمارے معاشرے میں رواج پاگئے ہیں اسی طرح یکم مئی کو مزدوروں کا دن منانا بھی خالصتاً غیر اسلامی ہے اور حصولِ حقوق کی آڑ میں معیشت کی تباہی اور مالک اور مزدور کے مابین ایک خلیج حائل کرنے کے لیے اسے رواج دیا گیا ہے۔
اسلام میں کوئی خاص دن منانے سے مزدور کے حقوق متعین نہیں ہوجاتے بلکہ اسلام نے مستقل ایک نظام پیش کیاہے جسے سامنے رکھ کر ہر دور اور معاشرے میں مالک اور مزدور کے مساوی حقوق دیے جاسکتے ہیں۔ 19ویں صدی کے نصف میں روس میں مزدوروں سے 19,20 گھنٹے روزانہ کام لیاجاتاتھا تاکہ ان کے بچے دو وقت کا کھانا پیٹ بھر کر کھاسکیں۔ وہ ہاتھ جو فصلیں اُگاتے تھے، ان کے بچے اچھے کھانے کو ترستے تھے، وہ ہاتھ جو کھڈیوں اور فیکٹریوں میں ہزاروں اور لاکھوں گز کپڑا بُنتے ان کی عورتیں جسم چھپانے کو ترستی تھیں۔
کہتی رہتی تھی ماں افسر بنے گا میرا لال
بھوکا بچہ آج ردی میں کتابیں دے گیا
فیکٹری کے کسی حصے میں آگ بھڑک اُٹھتی تو کئی مزدور زندہ جل کر راکھ ہوجاتے، سرمایہ دار یہ کہتے ہوئے نظر انداز کردیتے کہ کام کے دوران حادثات ہوسکتے ہیں، ٹھیک ہے! ایک حادثہ ہوگیا ہے، مزدوری کرتے وقت مرکھپ جانا بھی کام کا حصہ ہے۔ ان ہی مزدوروں کی وجہ سے خام مال تیار شدہ مصنوعات میں تبدیل ہورہاتھا، زردار، سرمایہ دار بن رہے تھے اور سرمایہ دار اپنی عیاریوں سے غریب کا خون چوس رہے تھے۔
اوقات کار کا تعین نہ ہونے کے سبب امریکہ میں بھی مزدوروں سے سولہ سولہ گھنٹے کام لیاجانے لگا، یورپ اور روس کے محنت کشوں نے 10گھنٹے کام کرنے کی تحریک کا آغاز کیالیکن سرمایہ دار اور جاگیر دار حکومتیں مزدوروں کی ہر جائز جدوجہد کو خلاف ضابطہ قرار دے کر ہمیشہ کے لیے دبانے کے درپے تھیں چنانچہ اس تحریک کو پوری قوت اور بے دردی سے کچل دیا گیا۔ پھر دوسری دفعہ امریکی مزدوروں نے یکم مئی 1886ء میں بے روزگاری اور سرمایہ داروں کے مظالم کے خلاف ہڑتال کا اعلان کیا۔ اس مرتبہ مردور بھپرے ہوئے تھے اور امریکا کے صنعتی شہر شکاگو میں فیکٹری اور کارخانے بند تھے۔ کالے اور گورے تمام مزدور امریکی قانون پر لعنت بھیج رہے تھے جس میں مزدور کا تحفظ نہیں تھا اور سرمایہ دار کی ہوس پرستیوں کو روکنے کے لیے کوئی لگام بھی نہیں تھی۔ مزدور نعرے لگارہے تھے کہ اوقات کار میں کمی کرو، اتنی اجرت دوکہ زندہ رہ سکیں۔ ہڑتال کا آغاز یکم مئی سے ہوا اور جب تین مئی کو بھی ہڑتال رہی تو پولیس نے سرمایہ داروں کے حکم پر مزدوروں پر فائر کھول دیا۔ کئی مزدور ہلاک ہوگئے۔ چار مئی کو تمام محنت کشوں نے ہلاک ہونے والوں کے سوگ میں ایک اور جلوس نکالا۔ مزدوروں کی ایک بڑی تعداد شکاگو مارکیٹ کے چوراہے میں جمع ہوگئی۔ اس مرتبہ پولیس اور فوج نے مل کر حملہ کیا۔ سڑکیں اور دیواریں مزدوروں کے خون سے سرخ ہوگئیں اور مزدور تحریک کی قیادت کرنے والے رہنمائوں کو گرفتار کرلیا جن کے نام Angel, Parson,تھے۔Mansher, Aspinarکو بے دردی سے سولی پر چڑھا دیاگیا۔ آج دنیا کے مختلف ممالک میں اس واقعے کی یاد میں یہ دن منایا جاتاہے جس کا آغاز امریکہ کے شہر شکاگو سسے ہوااس سے قبل اس کا وجود نہیں تھا۔ اس دن نے امریکی دہشت گردی اور ظلم کے نتیجے میں جنم لیا جس کا اسلامی روایات سے کوئی تعلق نہیں اس لیے کہ اسلام کسی پر ظلم کرنا جائز نہیں سمجھتا بلکہ اسلام تو ہر ایک کو اس کے حقوق دیتا ہے اور اسلامی تاریخ میں کبھی بھی کوئی ایسا ظلم کا اجتماعی نظارہ دیکھنے میں نہیں ملا۔ آج مسلمان بھی اس دن کو مناتے ہیں جبکہ اسلام قطعی طورپر ان ظالمانہ کارروائیوں سے پاک ہے جن سے امریکی معاشرت مرکب تھی۔
آج مسلم ممالک میں یکم مئی کو شکاگو میں ہلاک ہونے والے گیر مسلم مزدوروں کو شہداء کے طورپر پیش کیاجاتاہے۔ شہید کی عظمت اور مقام ومرتبہ تو بہت بلند ہے۔ غیر مسلم کا تصور اور خیال بھی ان بلندیوں کو نہیں چھو سکتا جہاں شہید کا گزر ہوتاہے۔ مسلمانوں کو تو ایسا مزدور دن منانے کی ضرورت ہی نہیں کہ اسلام نے تو مزدور اور مالک کے تمام حقوق متعین کردیے ہیں جن پر عمل کیاجائے تو معیشت اور معاشرت دونوں کی جائز ضروریات پوری ہوجاتی ہیں۔ اسلام میں مزدور کو اجرت اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرنے کا حکم ہے۔ یہ احترام ہے مزدور کا جس کا حکم اسلام نے دیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ تمھارے مزدور اور ملازم تمھارے بھائی ہیں۔ اس سے آقائی تصور کا خاتمہ ہوجاتاہے۔ آقا اور مالک انسان ہونے کے اعتبار سے برابری کا درجہ رکھتے ہیں۔ صرف برابری ہی نہیں ان سے بھائیوں جیسا سلوک کرنے کا بھی حکم دیاجاتاہے جبکہ امریکی نظام میں تو مزدور کو ان کے جائز حقوق سے مھروم رکھ دیاگیاہے۔ وہاں سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام نے اپنے بازوپھیلا رکھے ہیں۔ اسلام ان تمام چیزوں سے پاک ہے۔ لہٰذا مزدوروں کے تمام مسائل کا حل اسلام میں ہے۔ اسلام کے قانون کو ملک کا واحد سپریم لاء تسلیم کیاجائے تو کسی کی حق تلفی نہیں ہوگی۔ جلوس نکالنے ،جلسے اور ہڑتالیں کرنے اور نعرہ بازی سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ بگڑتے ہیں۔ پاکستان کا محنت کشوں کا طبقاتی نظام پر اھسان کچھ کم نہیں جو انتہائی اجرت پر مہنگائی سے لڑتے، روز جیتے اور روز مرتے ہیں۔ مزدور رہنمائوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے جو مزدور کی اجرت مقرر کی گئی ہے اس پر عمل درآمد نہیں کیاجارہا۔ نجی شعبے میں محنت کش آج بھی انتہائی کم اجرت پر ملازمت کرنے پر مجبور ہیں جبکہ صحت اور سکیورٹی تو کسی دیوانے کے خواب سے کم نہیں ۔ پاکستان میں کھیتوں میں مزدوری کرنے والے، فیکٹریوں میں کام کرنے والے بچے، دیہی علاقوں میں سلائی کڑھائی کرنے والی اور سڑکوں پر مزدوری کرنے والی خواتین کا جو استحصال ہورہاہے اس نے یہ ثابت کردیاہے کہ مزدور کے حقوق کی تحریک نے جو حقوق حاصل کیے تھے وہ آج دوبارہ سلب ہوچکے ہیں۔ یوم مئی کی پہچان اگرچہ مزدوروں کے دن کے حوالے سے ہے لیکن مزدوروں کی اکثریت اس دن کی اہمیت اور اپنے حقوق سے بے خبر ہے جس کی یاد یہ دن دلاتاہے لیکن موجودہ حکومت نے بھٹہ مزدوروں کے بچوں کی تعلیم وتربیت کے جو اقدامات کیے ہیں وہ قابلِ تحسین ہیں۔ اس طرح سے چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہوسکے گا اور مزدور کے بچے بھی زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوں گے۔
0 تبصرے