پاکستان میں بچوں کو لاحق سنگین بیماریوں میں پولیو کا مرض بدستور ایک بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔ بچوں کی بہتر صحت، محفوظ مستقبل اور جسمانی معذوری سے بچاؤ کے لیے والدین کا فعال کردار آج پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ایسے میں جب دنیا تیزی سے صحت کے شعبے میں ترقی کر رہی ہے، ہمیں بھی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے اپنے بچوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے حفاظتی ٹیکہ جات اور پولیو ویکسینیشن کو ترجیح دینا ہو گی۔
رواں سال 2025 کے آغاز سے اب تک پاکستان میں پولیو کے چھ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں سے چار سندھ، ایک پنجاب اور ایک خیبر پختونخوا سے سامنے آیا ہے۔ یہ اعدادوشمار ہمیں یہ باور کرانے کے لیے کافی ہیں کہ وائرس تاحال موجود ہے اور ہماری معمولی غفلت بچوں کے لیے زندگی بھر کی معذوری کا باعث بن سکتی ہے۔
حال ہی میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے دو والدین نے اپنے بچوں کے پولیو کا شکار ہونے کے تجربات بیان کیے۔ ان کی کہانیاں اس تلخ حقیقت کی عکاسی کرتی ہیں کہ پولیو ویکسین سے محرومی یا معمولی تاخیر بھی بچوں کو عمر بھر کی معذوری سے دوچار کر سکتی ہے۔
ضلع چمن سے تعلق رکھنے والے پولیو سے متاثرہ زبیر کے والد نور شاہ نے کہا کہ جب بھی پولیو ٹیم ہمارے گھر آتی تھی تو ہم باقی بچوں کو پولیو کے قطرے پلا دیتے تھے، مگر زبیر کو کمزور سمجھ کر قطرے نہیں پلائے۔ آج وہ زندگی بھر کی معذوری کا سامنا کر رہا ہے۔ میری تمام والدین سے گزارش ہے کہ میرے تلخ تجربے سے سبق سیکھیں اور ہر پولیو مہم میں اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے ضرور پلوائیں۔
،
ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والی پولیو سے متاثرہ حسنہ شاہ کے والد برکت شاہ نے کہا کہ دو ماہ قبل ہمیں علم ہوا کہ ہماری بیٹی اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو پارہی۔ جب ڈاکٹر سے رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ وہ پولیو وائرس کا شکار ہو چکی ہے۔ یہ خبر ہمارے لیے ناقابلِ یقین اور دل خراش تھی۔ میری تمام والدین سے اپیل ہے کہ اپنے بچوں کو ہر پولیو مہم میں قطرے ضرور پلوائیں تاکہ آپ کو ایسی اذیت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
بچوں کو بار بار پولیو کے قطرے پلوانے سے ان کے جسم میں وہ قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے جو نہ صرف انہیں اس موذی مرض سے بچاتی ہے بلکہ وائرس کے مزید پھیلاؤ کو بھی روکتی ہے۔ یہی نہیں، بلکہ بچوں کو دیگر حفاظتی ٹیکہ جات کی مکمل کورس کے ذریعے وہ تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے جو انہیں بارہ قابلِ بچاؤ بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان جیسے علاقوں میں والدین نے پولیو مہمات میں بھرپور شرکت کی ہے، جس کے باعث وہاں نہ صرف پولیو کیسز رپورٹ نہیں ہوئے بلکہ دیگر پھیلنے والی بیماریوں کی شرح میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔ یہ واضح ثبوت ہے کہ والدین کی سنجیدگی اور حکومتی اقدامات سے بیماریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
ملک بھر میں ہر انسداد پولیو مہم کے دوران چار لاکھ سے زائد پولیو ورکرز، جن میں بڑی تعداد خواتین پولیو ورکرز کی ہے، گھر گھر جا کر پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہیں۔ ان کی محنت، قربانی اور لگن ہی اس پروگرام کی کامیابی کی اصل بنیاد ہے۔ والدین سے گزارش ہے کہ وہ ان پولیو ورکرز کے لیے اپنے دروازے کھولیں، ان سے عزت سے پیش آئیں اور اپنے بچوں کی ویکسینیشن کو یقینی بنائیں۔ یہ نہ صرف قومی فریضہ ہے بلکہ بچوں کے محفوظ مستقبل کی ضمانت بھی ہے۔ اگرچہ ماحولیاتی نمونوں میں اب بھی وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوتی ہے، لیکن خوش آئند پہلو یہ ہے کہ زیادہ تر بچوں میں پولیو وائرس سے متاثر ہونے کے باوجود شدید معذوری نہیں دیکھی گئی۔ اس کی بڑی وجہ بار بار ویکسینیشن سے حاصل کی گئی قوت مدافعت ہے۔ تاہم، یہ بہتری اطمینان کا سبب نہیں بننی چاہیے۔ وائرس کی مکمل روک تھام کے لیے تمام والدین کو ویکسینیشن مہمات میں شرکت یقینی بنانا ہو گی۔
پولیو کے خاتمے کے لیے حکومتِ پاکستان، وزیراعظم آفس، نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر اور اس کے عالمی شراکت دار ایک واضح حکمت عملی کے تحت کام کر رہے ہیں، جس کا مقصد 2025 کے آخر تک پاکستان کو پولیو فری ملک بنانا ہے۔ اس ہدف کے حصول کے لیے عوام کا تعاون ناگزیر ہے۔
پولیو کو شکست دینا اب بھی ممکن ہے، لیکن اس کے لیے پوری قوم کو متحد ہو کر کوششیں کرنا ہوں گی۔ اگر والدین اپنے حصے کا کردار ادا کرے، ہر گھر کا دروازہ پولیو ٹیم کے لیے کھلے اور ہر بچے کو وقت پر حفاظتی ٹیکے لگیں، تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان بھی دنیا کے ان ممالک کی صف میں کھڑا ہو گا جو پولیو کو مکمل شکست دے چکے ہیں۔
........................................
0 تبصرے