ترک صدر کا کامیاب دورہ پاکستان

شاہزادہ انور فاروقی

ترک صدر کا کامیاب دورہ پاکستان

جمہوریہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سرکاری دورے کی خبر نے رگ و پے میں فخر و انبساط کی لہر دوڑا دی ہے۔ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان معاملہ صرف کسی حکومت یا حکمران کی نسبت سے نہیں بلکہ دونوں ممالک کے عوام محبت اور اخوت کے لازوال رشتوں میں جڑے ہیں۔ برصغیر کے اس خطے کے لوگوں کا ترکیہ سرزمین کے ساتھ بہت پرانا رشتہ ہے جسے گزرتے وقت اور آزمائشوں نے مضبوط سے مضبوط تر کیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد آر سی ڈی کے معاہدے کے ذریعے علاقائی تعاون کے فروغ کی ایک اہم کوشش کی گئی۔اس کے بعد بھی مسلم اُمہ کے مسائل کے حوالے سے دونوں ملکوں کے موقف میں بہت ہم آہنگی پائی گئی۔ ترکیہ میں بھی جمہوریت اور عوامی حکمرانی کے تصور کو بہت ساری مشکلات کا سامنا رہا۔ بمشکل تمام عوامی حکمرانی قائم ہوئی لیکن اس کے باوصف کچھ طبقات میں اس عوامی حکمرانی کے خلاف بے چینی پائی جاتی تھی جس کے حوالے سے ایک بڑی بغاوت برپا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہاں صدر جمہوریہ رجب طیب اردوان کے ساتھ عوام کی محبت اور بے مثال حمایت سامنے آئی اور ترکیہ کے عوام نے ٹینکوں اور مسلح دستوں کا جذبہ ایمانی اور حوصلے سے سامنا کیا اور اس بغاوت کو بھرپور انداز میں کچل کر رکھ دیا۔ سلطانی جمہور کی اس جیت سے ترکیہ میں اسلامی نشاۃ ثانیہ کی بحالی کے لیے تڑپ کا اندازہ ہوتا ہے۔ ترکیہ کی عوام نے اپنے راہبر رجب طیب اردوان کی معیت میں ہرقسم کے مشکل حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ متوازن معاملہ کیا، خواہ اپنی کرنسی لیرا کی قیمت گر جانے کا معاملہ ہو یا فلسطین اور غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ اسرائیلی بہیمانہ سلوک کا مسئلہ ہو، باہمی اتفاق سے ترکوں نے ہر مشکل کو حل کیا ہے۔ دوسری جانب اگر وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کے بطور وزیراعظم عرصے کا جائزہ لیا جائے تو بھی معلوم پڑتا ہے کہ ان کا دور حکمرانی بھی ہر طرح کے مسائل سے بھرا ہوا تھا۔دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار معیشت، سیاسی عدم استحکام اور معاشرتی تقسیم کے ساتھ ساتھ بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال نے ہر محب وطن پاکستانی کو پریشان کر رکھا تھا۔ ریاست کو بنیادی اور سنگین نوعیت کے چیلنچز کا سامنا تھا۔ تاہم وزیر اعظم پاکستان نے ہمت اور تدبر کے ساتھ اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مقابلہ کیا اور ملک وقوم کی ڈولتی ہوئی کشتی کو بڑی حد تک محفوظ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اسی طرح سیاسی نفاق کو کم کرنے میں درکار نتائج کا حصول ممکن بنانے کے لیے ہر کوشش کی جارہی ہے لیکن داخلی سیاست میں ذاتی مفادات کا غلبہ ہونے کے باعث مشکلات زیادہ ہیں۔مہنگائی جو عوام الناس کا بہت بڑا مسئلہ تھا اور ملک میں مہنگائی کی شرح جو ایک وقت میں چالیس فیصد کے قریب تھی، وزیر اعظم شہباز شریف نے منصب سنبھالا تو قوم سے ایک سال میں یہ شرح سنگل ڈیجٹ میں لانے کا وعدہ کیا۔ نیت صاف منزل آساں۔۔۔ مہنگائی کی شرح چھ ماہ کی قلیل مدت میں سنگل ڈیجٹ میں بھی تنزلی کا سفر جاری رکھے ہے اور اب جنوری 2025 میں 2.4 فیصد پر آ گئی ہے۔بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے درکار آئی ایم ایف کی جانب سے نئےمعاہدے پر تقریبا˝ کوئی امید نہیں رہی تھی، یہ صرف اور صرف وزیراعظم شہباز شریف کی ذاتی کوششوں سے ہی ممکن ہوپایا۔ ورلڈ بینک کی جانب سے ادارہ جاتی اور معاشرتی سدھار کی شراکت بھی شہباز شریف حکومت کی ایک اور بڑی کامیابی ہے۔ جس کے تحت اگلے سال سے دس سال کے پروگرام میں بیس ارب ڈالر ملیں گے جو ملک و قوم کی ترقی کے لیے ناگزیر چھ شعبوں کو صرط مستقیم پر لانے میں خرچ کیے جائیں گے۔ کاروباری ماحول کو موزوں بنانے کے لئے بینکوں کے شرح سود میں بہت بڑی کمی کی گئی۔ سفارتی محاذ پر پاکستان کو تنہائی سے نکالنے کے لئے وزیر اعظم نے اپنی طبیعت کے عین مطابق طوفانی دورے کیے، جس سے بین الاقوامی تعلقات میں موجود سرد مہری کم کرنے میں نا صرف مدد ملی بلکہ بعض ممالک کے ساتھ تعلقات میں اضافی گرمجوشی بھی میسر آئی، جس میں وزیراعظم کا مختلف زبانوں پر عبور رکھنا بہت معاون و مددگار رہا۔ اس معاملے میں وزیر اطلاعات ونشریات عطا تارڑ نے بھی اپنا کردار کماحقہ ادا کیا۔ داخلی محاذ پر بدتمیزی کی حدوں کو چھوتی جارحانہ اپوزیشن کو منہ توڑ جواب دیا تو دوسری جانب غیر ملکی طاقتوں کی جانب سے پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کے محاذ پر حکومت کا دفاع کیا۔ اگر عطاء اللہ تارڑ 26 نومبر کو شام ڈھلے اس مقام پر موجود نہ ہوتے جہاں ہزاروں لاشوں کا پروپیگنڈا کیا جانا طے شدہ تھا، تو یقین جانیں میرے جیسے دشت دشت کی خاک چھاننے والے صحافی کے لیے اس پروپیگنڈے کی ضد میں آنا یقینی تھا۔ عطاء تارڑ کا ڈی چوک کلیئر ہوتے ہی وہاں کا دورہ کرنا جہاں ملک دشمن کی بورڈ واریئرز پر سرجیکل سٹرائیک تھا وہیں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں، بیلاروس کے صدر کی قیادت میں پاکستان آئے ہوئے ایک بڑے سرمایہ کار وفد سمیت بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے اعتماد میں اضافے کا باعث بنا۔ جتنے بھی وزراء گفتگو کر لیں، وزیر اعظم کے بعد عالمی سطح پر جس بات کو توجہ مل پاتی ہے وہ حکومت پاکستان کے ترجمان وفاقی وزیر اطلاعات ہی ہیں۔ اس سب میں وزیر اعظم شہباز شریف نے ہر بین الاقوامی فورم پر فلسطین کے مسئلے پر توانا اور مؤثر آواز بلند کی اسے پوری دنیا بالخصوص مسلم ممالک میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کوئی شک نہیں وہ گیا کہ غزہ کے مسلمانوں پر اسرائیل نے مشکلات کے پہاڑ توڑے جبکہ کشمیر پر بھی عالمی سرد مہری نے امت مسلمہ کو عجب مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ ایسے میں پاکستان ترکیہ ہائی لیول سٹریٹیجک کوآپریشن کونسل کے اجلاس سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں اُمید کی کرن دکھائی دی ہے کہ جدید اور مضبوط معیشت کے حامل ترکیہ اور عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت پاکستان کی اعل ’ی قیادت اکٹھی ہوٸی۔ اس دورے کے دوران مختلف معاملات سمیت زراعت، لائیو سٹاک اور کاروبار کے باہمی تعاون کے منصوبے زیر بحث رہے۔ دونوں ممالک کی قیادت کے اس اکٹھ سے صرف پاکستان اور جمہوریہ ترکیہ ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں میں اُمید پیدا ہوگی۔