صوفی غلام مصطفیٰ تبسم برصغیر کے ایک نامور شاعر ادیب ،نقاد، مترجم اور مدیر

تحریر تابندہ سلیم

صوفی غلام مصطفیٰ تبسم برصغیر کے ایک نامور شاعر ادیب ،نقاد، مترجم اور مدیر

صوفی غلام مصطفی تبسم اردو فارسی اور پنجابی ادب کا ایک بیش قیمت خزانہ اور ہمارا قیمتی ادبی اثاثہ ہیں ۔آپ 4 اگست 1899ء کو امرتسر بھارت میں پیدا ہوئے جہاں آپ کے آباؤ اجداد کشمیر سے آکر آباد ہوئے تھے ۔ آپ کے والد کا نام غلام رسول اور والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ آپ کو بچپن میں ہی ایک ولی بزرگ نے مستقبل میں نامور اور شہرت یافتہ ہونے کی پیشین گوئی کی تھی جو سچ ثابت ہوئی.صوفی تبسم کے والد کا پیشہ کاروبار تھا لیکن صوفی تبسم نے درس و تدریس کے شعبے کو اپنایا ۔ابتدائی تعلیم چرچ مشن سکول امرتسر سے حاصل کی۔ ایف اے خالصہ کالج امرتسر سے اور بی اے لاہور کالج سے کیا ۔اسلامیہ کالج لاہور سے فارسی کی سند حاصل کی اور سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے بی ٹی کا امتحان پاس کیا اور گورنمنٹ ہائی سکول امرتسر سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا مگر کچھ ہی عرصہ بعد معلمی کر کے انسپیکٹر آف سکولز ہو گئے ۔کچھ عرصہ تک سینٹرل ٹریننگ سکول لاہور میں اور پھر عرصہ چار سال بعد گورنمنٹ کالج لاہور آ گئے۔ یہاں صدر شعبہ فارسی اور صدر شعبہ اردو بھی رہے اور مدت ملازمت پوری کر کے یہیں سے ریٹائر ہوئے ۔صوفی تبسم 23 سال کی طویل مدت تک لاہور کالج سے منسلک رہے۔ 1931ء تک وہ اس کالج میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے ۔انہوں نے ایک ڈرامیٹک سوسائٹی بنائی جس کے تحت شیکسپیئر کے کئی ڈرامے ترجمہ کر کے سٹیج بھی کروائے ۔ان ڈراموں میں "ساون رین دا سفینہ" اور "خطرناک لوگ "خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔یہ ڈرامے اس قدر مقبول ہوئے کہ ان کو ہر سال سٹیج کیا جاتا تھا اور ایک خصوصیت ان ڈراموں کی یہ بھی تھی کہ اس میں صوفی صاحب نے بطور ایکٹر بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے تھے ۔"دلی کی آخری شمع" کے عنوان سے مشہور تمثیل میں بر صغیر کے نامور شعراءکے نام اور کلام کو نئی نسل سے روشناس کرایا ۔یہ وہ بڑا کارنامہ تھا جس کی یادگار تصاویر آج بھی گورنمنٹ کالج کے ہال میں زندہ و تابندہ ہیں ۔گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم بالغاں کے لیے صوفی صاحب نے ایک جریدہ "دوست" کے نام سے نکالا جو ادارت میں خاصہ کامیاب رہا۔ گورنمنٹ کالج میں ادیب فاضل کی شام کی کلاسیں بھی صوفی صاحب نہیں شروع کروائیں ۔صوفی تبسم کے نامور شاگردوں میں قدرت اللہ شہاب، الطاف گوہر، تجمل حسین، اشفاق احمد ،بانو قدسیہ، فیض احمد فیض، اعجاز حسین بٹالوی، جسٹس نسیم حسن شاہ، کشورناہید، جگن ناتھ، آزاد ،مشکور حسین یاد اور بہت سے نامور شاگرد برصغیر کے گوشے گوشے میں موجود ہیں ۔صوفی تبسم کا تخلص پہلے کچھ اور تھا لیکن صوفی صاحب ہر وقت متبسم رہتے تھے تو ان کے استاد محترم نے ان کاتخلص تبسم تجویز کیا ۔یوں ا نکا نام صوفی تبسم ہو گیا۔صوفی صاحب کو کتب بینی کا بہت شوق تھا اور وہ اپنے دادا ابو کی فارسی اور اردو کی نادر کتابوں پر مشتمل لائبریری سے خوب فیضیاب ہوا کرتے تھے۔ صوفی صاحب کو فارسی شاعری کا بہت شوق تھا ۔صوفی صاحب نے ابتدائی شاعری فارسی زبان میں ہی کی تھی ۔صوفی صاحب ریٹائر ہونے کے باوجود بھی علمی اور ادبی کاموں میں مصروف رہے اسی سال صوفی صاحب کو خانہ فرہنگ ایران کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔فارسی زبان کی ترویج کے لیے ان کی کوششیں قابل ستائش ہیں ۔آپ نے لوگوں میں فارسی کا ذوق پیدا کرنے کے لیے بے انتہا کام کیا ۔اسی دوران صوفی صاحب سول سروسز اکیڈمی اور فنانس سروسز اکیڈمی میں بھی معلم کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ جہاں وہ اردو زبان کے معلم تھے۔ آپ کچھ عرصہ" لیل و نہار "کے ایڈیٹر بھی رہے۔" لیل و نہار" میں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان میں بطور مشیر اعلی وابستہ ہوئے 1965ء کی جنگ میں کئی جنگی ترانے لکھ کر اہم قومی فریضہ سرانجام دیا۔ یہ ترانے ملکہ ترنم نورجہاں نے اپنی سریلی آواز میں گائےجو آج بھی زبان زد عام ہیں۔

اے پتر ہٹا تے نہیں وکدے

توں لبھدی پھریں بازار کڑے

ِمیریا ڈھو ل سپاپاہیا

تینوں رب دیاں رکھا

صوفی صاحب کی لکھی ہوئی بے حد مقبول غزلیں فریدہ خانم نے گائیں ۔جن میں

وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ

کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ

بہت مشہور ہیں ۔صوفی صاحب نے غالب کے فارسی کلام کا منظوم اردو ترجمہ بھی کیا جو ان کا بڑا کارنامہ ہے ۔اسی طرح اردو کلام کا پنجابی ترجمہ بھی خوب کیا ۔

ترجمہ :میرے شوق دا نہیں اعتبار تینوں

آجا ویخ میرا انتظار آجا

غالب فارسی: وداع و مثل جداگانہ لذت دارد

ہزار بار برداصد ہزار بار بیا

یہ پہلی پنجابی غزل تھی جو صوفی صاحب نے لکھی اور اس کو غلام علی نے گایا۔ اسی طرح امیر خسرو کے فارسی کلام کا بھی منظوم ترجمہ کیا جو "دو گونہ "کے نام سے شائع ہو چکا ہے ۔اس کی غزل جو بہت مقبول ہے ناہید اختر نے گائی

یہ رنگینی ء نو بہار اللہ اللہ

یہ جام مہ خوشگوار اللہ اللہ

صوفی صاحب ایک قادر الکلام شاعر تھے آ۔ پ کی شاعری گزشتہ نصف صدی پر محیط ہے۔ آپ محض اردو کے شاعر ہی نہیں بلکہ پنجابی اور فارسی کے بھی بلند پایا شاعر تھے ۔آپ نے جو ادبی سرمایہ چھوڑا ہے، اس میں استادانہ فکر و فن کے جوہر موجود ہیں ۔فن پختگی، زبان پر قدرت اور روایات کا گہرا شعور آپ کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔غزل قطہ، نظم ،رباعی غرضیکہ ہر صنف میں ان کی شاعری میں نہایت عمدہ اور دلکش نمونے موجود ہیں ۔ان کی شاعری میں غم جاناں اور غم دوراں دونوں ہی موجود ہیں ۔وہ اپنے خیالات کو بڑی سادگی ،صفائی، نغمگی اور لطافت اور شیرینی کے ساتھ شعر کے کالب میں ڈھالتے ہیں جس سے ان کے اسلوب بیان میں ایک امتیازی شان پیدا ہو گئی ہے ۔ صوفی تبسم پنجابی کے بھی شاعر تھے۔ صوفی صاحب کی پنجابی غزلیں ،گیت اور دوہڑے بہت مشہور ہیں ۔آپ نے غالب اقبال اور کئی انگریزی شعراء کے کلام کا پنجابی ترجمہ بھی کیا۔ آپ کی پنجابی غزلیں نظمیں گیت اور دوہڑے اور ترجمے آپ کو پنجابی کا ایک صاحب طرز شاعر بناتے ہیں ۔صوفی تبسم بچوں سے بے حد محبت کرتے تھے۔ ایک دن ایک واقعہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے بچے اپنی اماں اور دادی جان سے کہانیاں سنتے مگر آخر ایک دن ان کی والدہ نے انہیں میری طرف بھیجا کہ جاؤ والد سے کہانی سنو میں نے دو چار دن تو کہانی سنائی مگر پھر میں نے بچوں سے کہا کہ میں آپ کو نظم سنا سکتا ہوں اور یوں انہوں نے اپنی بیٹی ثریا کے لیے ایک نظم کہی ۔

۔ثریا کی گڑیا نہانے لگی

نہانے لگی ڈوب جانے لگی

بڑی مشکلوں سے بچایا اسے کنارے پہ میں کھینچ لایا اسے

ثریا اور عزرا دونوں ان کی بیٹیوں کے نام ہیں جن کو خوش کرنے کے لیے انہوں نے نظمیں کہیں اور یوں نظموں کا سلسلہ چل پڑا پھر ایک بچہ جو صوفی صاحب کے دوست عبدالخالق صاحب کا بیٹا تھا بڑی عجیب و غریب حرکتیں کرتا تھا وہ مشہور و معروف کردار ٹوٹ بٹوٹ ہے جو آج بھی بچوں کے ہونٹوں پر ہے ۔

ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ

باپ تھا اس کا میر سلوٹ

پیتا تھا وہ سوڈا واٹر

کھاتا تھا بادام اخروٹ

صوفی صاحب نے بچوں کے لیے ملی نغمے، گیت، پہیلیاں، بچوں کو عام فہم زبان میں گنتی سکھانے کے لیے کئی ایک نظمیں لکھیں جن سے ان کی اس محبت کا احساس ہوتا ہے جو وہ بچوں کے لیے رکھتے تھے۔ صوفی تبسم کو طالب علمی کے زمانے ہی سے علامہ اقبال سے بہت عقیدت تھی ۔صوفی صاحب کا علامہ اقبال کے ساتھ محبت اور عقیدت کا سلسلہ جو زمانہ طالب علمی سے قائم ہوا تقریبا 18 سال تک قائم رہا ۔علامہ اقبال کی وفات کے بعد تو صوفی صاحب نے علامہ اقبال کی شاعری اور فکر و فن کی تشریح اور وضاحت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی ۔فروری 1976 میں صوفی صاحب کی انہی خدمات کے پیش نظر انہیں اقبال اکادمی کا وائس پریزیڈنٹ مقرر کر دیا گیا جو تا دم آخر وہ اس عہدے پر فائز رہے ۔ان کی خدمات کے اعتراف میں پنجاب یونیورسٹی نے انہیں ایک تمغہء پیش کیا جب صوفی صاحب آرٹس کونسل کے چیئرمین بنائے گئے۔ 1962 میں انکو صدر پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا اور 1966ء میں ایران حکومت کی طرف سے تمغہ ء نشان سپاہ ایوارڈ دیا گیا ۔ان کی ادبی خدمات کے پیش نظر انکو ستارہ ء امتیاز سے بھی نوازہ گیا اور مارچ 2023ء میں ان کو صدر پاکستان کی طرف سے نشان امتیاز دیا گیا جو ان کی پوتی ڈاکٹر فوزیہ تبسم نے وصول کیا۔ صوفی صاحب کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر الحمرا آرٹس کونسل کے ایک ہال کا نام صوفی تبسم ہال رکھنا چاہئے۔ یہ کام حکومت وقت کا ہے کہ وہ اپنے ملک کی اعلی علمی اورادبی ، محب وطن شخصیات کو آنے والی نسلوں کے لئے رول ماڈل اور یادگار بنائیں۔ الحمراء میں بھی انہوں نے ہفتہ وار اقبال لیکچر اور تنقیدی مجالس کا اہتمام کیا گویا اقبالیات کی ترویج اور ترقی کے سلسلے میں بھی صوفی صاحب نے انتھک کام کیا ۔آخری وقت میں صوفی صاحب اقبال میموریل فنڈ کے سلسلے میں ٹی وی پر قوم سے اپیل کرنے اسلام آباد گئے ہوئے تھے کہ واپسی پر لاہور ریلوے اسٹیشن پر اپنے ایک شاگرد کے ہاتھوں میں زندگی کی آخری سانسیں لی اور 7 فروری 1978ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ صوفی غلام مصطفی تبسم کی فنی اور ادبی خدمات کو تاحیات یاد رکھا جائے گا ۔جب تک پاکستان قائم رہےگا۔پاکستان کی تاریخ میں صوفی تبسم کا نام سنہری حروف میں لکھا اور ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔