پاکستان میں سموگ کے اثرات اور ان کا سد باب

تحریر؛ تابندہ سلیم (ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن راولپنڈی ڈویژن)

پاکستان میں سموگ کے اثرات اور ان کا سد باب

سموگ دو لفظوں سموک اور فوگ کا مجموعہ ہے ۔ویسے تو پاکستان میں سموگ کا وجود کافی عرصے سے ہے ۔لیکن آج کل اس نے خطرناک صورتحال اختیار کر لی ہے ۔سموگ موجودہ دورکا سب سے بڑا اور فکر انگیز مسئلہ بن گیا ہے۔کچھ عرصہ پہلے یہ مسئلہ صرف حکومتی اداروں تک محدود تھا لیکن اب یہ ایک عام آدمی سے بین الاقوامی سطح تک پہنچ چکا ہے ۔ انسان کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کیے جانے والے تجربات کے باعث زمین کی فضا اس قدر زہریلی اور خطرناک ہو چکی ہے کہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو جلد ہی ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ فضا اس قدر مکدر ہو جائے کہ کرہ ارض پر حیاتیاتی زندگی کا امکان مشکل ہو جائے ۔بعض سیاستدان یہاں تک کہتے ہیں کہ زندگی چند برس کی مہمان ہے اور انسان کا زمین پر رہنا ایک معجزہ ہے یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے نہ صرف پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک بلکہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی پریشان ہیں ۔پاکستان میں آبادی میں اضافہ بھی سموگ اور آ لودگی کا اہم سبب گنا جاتا ہے۔ یہ اضافہ بہت سے مسائل کو جنم دے رہا ہے ۔

پاکستان کی آبادی میں ہر سال 35 لاکھ نفوس کا اضافہ ہو رہا ہے جو بہت خطرناک ہے۔سر سبز و شاداب کھیتوں کی جگہ کچی آبادیاں بنائی جا رہی ہیں ۔آبادی میں روز افزوں اضافے کے باعث ہر سال چھ لاکھ مکانوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔یوں ہر سال 40 ہزار ایکڑ زرخیز زرعی زمین غذائی ضروریات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح سموگ کا ایک اہم سبب گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بھی ہے ۔ہمارے ملک میں گاڑیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے ۔اور یہ گاڑیاں سڑکوں پر رواں دواں ہر روز ایک لاکھ 80 ہزار بیرل تیل جس کی درآمد پر حکومت سالانہ پانچ ارب روپے خرچ کرتی ہے دھوئیں میں اڑا دیتی ہیں۔اور یہ دھواں سموگ میں بہت خطرناک حد تک اضافہ کرتا ہے جس کی وجہ سے دمہ ، ٹی بی ،پھیپھڑوں کے امراض کینسر اور نروس بریک ڈاؤن کے خطرات بہت بڑھ جاتے ہیں ۔

اس کی ایک وجہ لوگوں کا دیہاتوں سے شہروں میں آنا بھی ہے ۔دیہاتی ابادی کا 30 فیصد اب شہروں میں منتقل ہو چکا ہے ۔شہری علاقوں میں تنگ و تاریخ مکانوں میں رہنے والوں کی کثیر تعداد صحت کے فقدان کا شکار ہے ۔شہروں میں گندگی کے ڈھیر، فضلے، ابلتے ہوئے گٹر شہری ماحول کو بری طرح سے آلودہ کر رہے ہیں۔اور کچی آبادیوں میں کثیر تعداد میں لوگ رہ رہے ہیں ۔ جنگلات کا تیزی سے کٹنا بھی سموک کی اہم وجہ ہے ۔ابادی میں بے پناہ اضافے کے پیش نظر جنگلات کاٹنے پڑتے ہیں ہر سال وطن عزیز میں47 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں جن میں سے 12 لاکھ بچے صحت و صفائی کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں ۔

پاکستان میں ہر سال لاکھوں ٹن کوئلا جلایا جاتا ہے اور یہ کوئلہ بھٹیوں اور انجنوں میں استعمال ہوتا ہے پاکستانی کوئلے میں گندھک کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جو جلنے کے بعد فضا میں تیزاب بناتی ہے اور اس سے بارش میں تیزابی اثرات پیدا ہو جاتے ہیں ۔تا ہم گندھک کی زیادہ مقدار کی وجہ سے فضا میں آلودگی زیادہ پیدا ہو جاتی ہے ۔اور مختلف صنعتوں کہ قیام کی وجہ سے جہاں ہماری ضروریات پوری ہوتی ہیں وہاں ان کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں سموگ کا باعث بنتا ہے۔ سموگ کے پیدا ہونے کی ایک اہم وجہ فصلوں کو آگ لگانا ہے ۔

لوگ فصلیں جلا دیتے ہیں جس سے بہت خطرناک دھواں فضا میں شامل ہوتا ہے ۔حالیہ انڈ یا نے کماد کے کھیتوں میں ہزاروں ٹن کے حساب سے گنے کا ویسٹ جلایا ہے جس کی وجہ سے فضا میں کالے دھوئیں جمع ہونے سے سموگ کثیر مقدار میں پاکستان میں بھی پہنچ گئی ہے ۔اس وقت سموگ کی صورتحال پاکستان میں بہت گمبھیر ہے۔ اس وقت سموک کے لحاظ سے ملتان پہلے نمبر پر ہے اور لاہور دوسرے نمبر پر ہے ۔پنجاب بھر میں آج کل سموگ خطرناک حد تک ہے کہ سکولوں میں بچوں کو پڑھائی سے بھی کچھ دن کے لیے چھٹی دے دی گئی ہے ۔تاکہ وہ سموگ سے متاثر نہ ہو ں۔

وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف نے سموک کے خاتمے کے لیے بہت خاطرخواہ اقدامات کیے ہیں اور کر رہی ہیں ۔لاہور میں مصنوعی بارش کا انتظام کیا گیا ہے جو کہ اربوں روپے سے ممکن ہوگا۔اس کے علاوہ اینٹوں کے بھٹوں کو بھی بند کر دیا گیا ہے ۔تمام ہوٹلوں کو رات 10 بجے کے بعد بند کر دیا جاتا ہے اور باربی کیو کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔دھواں دینے والی گاڑیوں کو بھی بند کیا جا رہا ہے ۔اسی طرح فصلوں کو جلانے پر پابندی عائد کی گئی ہے اور بھاری جرمانے اور سزائیں ہیں ۔

اسی طرح اگر تمام فیکٹریوں کو شہروں سے دور ،آبادی سے دور متبادل جگہ دے کر بنا دیا جائے۔اور درختوں کے کاٹنے پر پابندی لگا دی جائے ۔تو سموگ کی روک تھام میں خاطرخواہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔لیکن یہ ایک دن یا چند مہینوں کا کام نہیں ہے۔ اس پر قابو پانے میں سالوں لگ سکتے ہیں ۔لیکن اگر ان خطوط پر چلا جائے اور لوگوں میں آگاہی بھی دی جائے اور اپنے ملک کو سموگ فری زون بنانے میں ہم سب مل کر کام کریں تو انشاءاللہ ہمارا ملک بہت جلد سموک فری ہو جائے گا۔