پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں آئینی ترامیم اور سیاسی معاملات پر بحث مباحثے جاری رہتے ہیں، وہاں عوام کی اصل ضروریات جیسے بھوک، بے روزگاری، اور کرپشن کے مسائل اکثر نظرانداز ہو جاتے ہیں۔ ہر بار پارلیمنٹ میں نئی ترامیم اور قوانین کی منظوری کا شور سنائی دیتا ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ ترامیم عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے بجائے سیاسی مفادات اور طاقت کی کشمکش میں محدود رہ جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے: کیا کبھی ایسی ترمیم بھی ہوگی جو بھوک سے مرتے انسانوں کو بچانے، بند کاروباروں کو چلانے، اور رشوت و بے ایمانی کے خاتمے کے لیے ہوگی؟
1. بھوک اور غربت: بنیادی انسانی حق سے محرومی
پاکستان میں لاکھوں افراد دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، غذائی عدم تحفظ کا شکار افراد کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ معاشی بدحالی اور مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے، اور حکومتوں کی پالیسیوں میں غربت کے خاتمے کا فقدان نمایاں ہے۔ اگر ترمیمی ایجنڈے میں بھوک اور غذائی تحفظ کے لیے کوئی جامع قانون شامل کیا جائے، تو کیا یہ عوام کے لیے ایک حقیقی تبدیلی کا آغاز نہ ہوگا؟
کسی آئینی ترمیم کے ذریعے ہر شہری کو بنیادی خوراک کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری قرار دینا ضروری ہے۔ اگر حکومتیں طاقت کے کھیل کے بجائے فوڈ سیکیورٹی پر توجہ دیں، تو ملک کے لاکھوں بچے بھوکے سونے سے بچ سکتے ہیں۔ بھوک صرف جسمانی صحت کا مسئلہ نہیں بلکہ سماجی بگاڑ، جرائم اور ناانصافی کو بھی جنم دیتی ہے۔
2. بے روزگاری اور بند کاروبار: معیشت کی بحالی کی ضرورت
بند کاروبار اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے پاکستانی معاشرے میں مایوسی اور بے چینی کو فروغ دیا ہے۔ ہر سال لاکھوں نوجوان ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود ملازمتوں سے محروم رہتے ہیں۔ کاروباری شعبہ بدعنوانی، غیر مستحکم پالیسیاں اور بجلی و گیس کی قلت جیسے مسائل کا شکار ہے۔
کیا آئینی ترمیم کے ذریعے روزگار کی ضمانت اور کاروباری ترقی کے لیے سازگار ماحول فراہم نہیں کیا جا سکتا؟ ایک ایسی ترمیم کی اشد ضرورت ہے جو ہر شہری کو روزگار کے مواقع مہیا کرنے اور کاروباری طبقے کو تحفظ فراہم کرنے کی ضامن ہو۔ حکومت کو ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کے لیے آسان قرضے، کم شرح سود، اور مناسب ٹیکس پالیسیاں فراہم کرے۔
3. رشوت اور بے ایمانی کا خاتمو: ایک لازمی اقدام
پاکستان میں کرپشن ایک سرطان کی طرح پھیل چکی ہے، جو نہ صرف معیشت بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی کھوکھلا کر رہی ہے۔ حکومتی اداروں اور عوامی خدمت کے شعبوں میں رشوت ستانی ایک عام روایت بن چکی ہے، اور بدعنوانی کے خلاف قوانین اکثر مؤثر ثابت نہیں ہوتے۔
کیا آئینی ترمیم کے ذریعے سخت انسدادِ کرپشن اقدامات نہیں کیے جا سکتے؟ مثلاً:
ہر سرکاری ملازم کے اثاثوں کی سالانہ شفاف جانچ
رشوت لینے اور دینے والوں کے خلاف سخت سزائیں
ایک خودمختار اور غیر سیاسی احتساب کمیشن کا قیام
جب تک ادارے بدعنوانی سے پاک نہیں ہوں گے، ملک کی ترقی کا خواب ادھورا رہے گا۔ عوام کی خدمت کے لیے بنائے گئے اداروں میں ایمانداری اور شفافیت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت مضبوط انسدادِ کرپشن قوانین نافذ کرے۔
4. انسانی فلاح و بہبود کے لیے آئینی اصلاحات کا خواب:
یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ پاکستان میں آئینی ترامیم اور قوانین عموماً سیاسی فوائد حاصل کرنے اور اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ عوام کی بنیادی ضروریات پر توجہ دینے والے قوانین کو اکثر ترجیح نہیں دی جاتی۔ بھوک، بے روزگاری، اور کرپشن جیسے سنگین مسائل کے حل کے بغیر کوئی بھی آئینی یا سیاسی تبدیلی دیرپا اثرات نہیں ڈال سکتی۔
کاش! ایسی ترمیم ہوتی جو ہر شہری کو باعزت زندگی گزارنے کا حق دیتی۔ ایک ایسی آئینی تبدیلی، جو سیاست سے بالاتر ہو کر عوام کے مسائل کو ترجیح دیتی۔ اگر حکومت واقعی عوام کے مسائل کو سمجھتے ہوئے عملی اقدامات کرے، تو ملک میں نہ صرف معاشی ترقی ممکن ہے بلکہ سماجی انصاف اور امن کا قیام بھی یقینی ہو سکتا ہے۔
---
نتیجہ: ایک عوامی ترمیم کی ضرورت
پاکستان کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ آئینی ترامیم صرف سیاسی مفادات کے تحفظ تک محدود نہ رہیں بلکہ عوامی فلاح و بہبود کو بھی شامل کیا جائے۔ بھوک، بے روزگاری، اور کرپشن جیسے مسائل کا حل آئینی اصلاحات کا حصہ بننا چاہیے۔
جب تک ریاست عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات نہیں کرتی، ملک میں حقیقی تبدیلی ممکن نہیں ہوگی۔ ایک ایسی ترمیم کی ضرورت ہے جو عوام کی زندگیوں میں آسانی لائے، بند کاروباروں کو دوبارہ چالو کرے، اور رشوت و بے ایمانی کے خلاف مضبوط بند باندھے۔ یہی وہ تبدیلی ہے جو پاکستان کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنا سکتی ہے۔
0 تبصرے