اتائی ڈاکٹر ز اور ٹیکنیشنز کم پیسوں کا لالچ دےکر مسائل پیدا کررہے ہیں
کراچی: پاکستان میں بالوں کی پیوند کاری کے ماہرین نے بیرون ملک سے ہیئر ٹرانسپلانٹ کے
خواہشمندوں کی پاکستان آمد میں کمی اور مقامی افراد کے ترکی و دیگر ممالک سے ہیئر ٹرانسپلانٹ کرانے اور زر مبادلہ کے حصول میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اتائی ہیئر ٹرانسپلانٹ کرنے والوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائے جو اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں، یہ مطالبہ انہوں نے گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں ہونے والے ہیئر ایسوسی ایشن سوسائٹی آف پاکستان کے ہنگامی اجلاس میں منظور کی گئی متفقہ قرار داد میں کیا، اجلاس میں پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ہیئر ٹرانسپلانٹ سرجن ڈاکٹر ذوالفقار علی تونیو، ڈاکٹر حنیف سعید کے علاوہ ڈاکٹر طاہر شیخ، ڈاکٹر منظور انڑ، ڈاکٹر عابد ابڑو، ڈاکٹر اقبال، ڈاکٹر زین لطیف، حیدرآباد سے ڈاکٹر راجیش کمار راجہ، ڈاکٹر مکیش سجنانی، ڈاکٹر مہیش کمار، ڈاکٹر ظفر بقائی، ڈاکٹر سعیدہ، ڈاکٹر قرطاس شیخ و دیگر شریک تھے، ہنگامی اجلاس بلانے کا مقصد پاکستان میں ہیئر ٹرانسپلانٹ کے شعبے میں بڑھتی ہوئی اتائیت پر حکومتی اداروں کی توجہ مبذول کرانا تھا، اجلاس سے صدارتی خطاب میں سوسائٹی کے سابق صدر اور بورڈ آف گورنر کے رکن ڈاکٹر ذوالفقار علی تونیو نے کہا کہ متعدد ٹیکنیشن بڑے ناموں کی آڑ میں اپنے کلینکس چلا رہے ہیں اور اس محفوظ سرجری میں بھی پیچیدگیاں پیدا کرکے پاکستان کا اعتماد دنیا کے سامنے مجروح کررہے ہیں، ڈاکٹر منظور انڑ نے اجلاس کو بتایا کہ ان کا نام کئی اتائی ڈاکٹرز اور ٹیکنیشن استعمال کررہے ہیں یہ بدنیتی، بداخلاقی اور پیشہ ورانہ اصولوں کیخلاف عمل ہے، ڈاکٹر طاہر شیخ نے کہا کہ سوسائٹی کے اراکین سے سرجری کرانے میں یقیناً اخراجات بڑھ جاتے ہیں کیونکہ وہ سرجری کے بنیادی اصولوں کو پیش نظر رکھ کر کی جاتی ہے، جو کسی بھی شخص کی زندگی اور صحت کیلئے اہم ہے ڈاکٹر راجیش کمار راجہ نے حیدرآباد میں اتائی ڈاکٹرز اور ٹیکنیشنز کی جانب سے سرجری کی نشاندہی کی، ڈاکٹر عابد ابڑو نے بتایا کہ ان کے پاس بھی روزانہ کی بنیاد پر ایسے کیس آرہے ہیں جو انفیکشن اور دیگر پیچیدگیوں میں مبتلا ہو کر یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ انہوں نے ہیئر ٹرانسپلانٹ کرایا ہی کیوں ، ڈاکٹر ظفر بقائی نے اتائی ڈاکٹرز اور ٹیکنیشن کے بڑھتے ہوئے طوفان کو پاکستان میں ہیلتھ ٹورزم کیلئے انتہائی خطرناک قرار دیا، انہوں نے بتایا کہ ایک زمانہ تھا جب نہ صرف خلیجی ریاستوں سے لوگ اپنا ہیئر ٹرانسپلانٹ کرانے پاکستان آتے تھے اور کثیر زرمبادلہ ساتھ لاتے تھے اب یہی لوگ ترکی کا رخ کررہے ہیں، ڈاکٹر حنیف سعید نے مزید بتایا کہ صرف خلیجی ممالک کے لوگ ہی ایسا نہیں کررہے بلکہ پاکستانیوں میں متمول طبقے کے افراد کی بڑی تعداد نے بھی اپنے ہیئر ٹرانسپلانٹ کیلئے ترکی کا رخ کرنا شروع کردیا ہے جو بلاشبہ پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کے لیے ایک اور بڑا دھچکا ہے اس سے ملک میں زرمبادلہ آنے کے بجائے ملک سے جارہا ہے، ڈاکٹر حنیف سعید نے ارباب اختیار سے اپیل کی کہ وہ اس شعبے میں بڑھتی ہوئی اتائیت کا سختی سے نوٹس لیں تاکہ پاکستانیوں کی جان و مال و صحت کا تحفظ یقینی بنایا جائے، ڈاکٹر شہاب بیگ نے ہیئر ٹرانسپلانٹ کو ایک باقاعدہ سرجری قرار دیتے ہوئے کہا کہ 8 سے 10 گھنٹے کے اس پروسیجر میں کبھی لمحے کوئی بھی پیچیدگی سامنے آسکتی ہے، جس سے ایک ماہر اور کوالیفائیڈ ہیئر ٹرانسپلانٹ سرجن ہی عہد برآں ہوسکتا ہے، پیچیدگی اور خرابی پیدا ہونے سے پاکستان کا نام بدنام ہورہا ہے،سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر رانا عرفان نے کہا کہ ہیئر ٹرانسپلانٹ کے شعبے میں اتائیت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی جلد ہی ارباب اختیار پر مختلف ذرائع سے رابطہ کرکے زور دیں گے، ہیئر ٹرانسپلانٹ کو محفوظ ہاتھوں میں دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے، ڈاکٹر اقبال نے کہا کہ ذمہ داروں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر حل تلاش کرنا ہوگا اس سے پہلے کہ یہ شعبہ بھی پاکستان میں تنزلی کا شکار ہوجائے اور دنیا بھر میں ہماری بدنامی ہو، آخر میں متفقہ قرارداد میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ ہیئر ٹرانسپلانٹ کے شعبے سے اتائیت کے خاتمے کے لیے لائحہ عمل بنایا جائے۔
0 تبصرے