پاکستان کی بلیو اکانومی کی صنعت کو پوری صلاحیت کے مطابق استعمال نہیں کیا گیا ہے۔برطانیہ کی ڈپٹی ہائی کمشنرسارہ مونی
کراچی۔برطانیہ کی ڈپٹی ہائی کمشنرسارہ مونی نے کہا کہ پاکستان کی بلیو اکانومی کی صنعت کو پوری صلاحیت کے مطابق استعمال نہیں کیا گیا ہے جبکہ اس میں 100ارب ڈالز سے زیادہ کی آمدنی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔یہ بات انہوں نے جمعرات کو میری ٹائم کے عالمی دن کے مناسبت سے میری ٹائم ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کا ڈائریکٹوریٹ الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلیکیشن (ڈی ای پی ایم) کے تعاون سے مقامی ہوٹل میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل پی آئ ڈی ارم تنویر اور دیگرنے بھی خطاب کیا۔اس موقع پر سی ای او سی کیئر پاکستان کے وائس چیئرمین کیپٹن علی اصغر خان نے اپنی تقریر میں میری ٹائم ڈے کی اہمیت اور سیمینار کے اعراض و مقاصد پر تفصیلی روشنی ڈالی۔انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن کے سیکرٹری جنرل آرسینیو ڈومینگیز، دی ناٹیکل انسٹی ٹیوٹ کے چیف ایگزیکٹوکیپٹن جان لائیڈ اور انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ شپ بروکرز کے صدر کیون شیک شیف کے ریکارڈ شدہ ویڈیو پیغامات بھی سیمینار میں چلائے گئے جس میں انہوں نے میری ٹائم شعبے کی اہمیت اور درپیشن چیلنجز کے حوالے سے گفتگو کی۔سیمینار میں شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔برطانیہ کی ڈپٹی ہائی کمشنر نے کہا کہ کراچی میری ٹائم کے حوالے سے لامحدود صلاحیتوں کا حامل شہر ہے،پاکستان جیسے ملک کے لیے قومی معیشت میں بلیو اکانومی کو شامل کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے، پاکستان کے پاس 1001 کلومیٹر کی ساحلی پٹی ہے، جو سمندری جانوروں، پودوں اور معدنی وسائل کی متعدد اقسام کا گھر ہے۔انہوں نے کہا کہ ایس او ایل اے ایس کنونشن سمندری حفاظت کے لیے ہماری جاری وابستگی کا ثبوت ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سال کا تھیم "مستقبل میں نیویگیٹنگ،سیفٹی فرسٹ" میری ٹائم سیفٹی کو بڑھانے کے لیے ہماری اجتماعی کوششوں کی عکاسی کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ برطانیہ کے پاس دنیا کی کچھ معروف بحری تربیت کی سہولیات ہیں، جن میں وارشاش میری ٹائم سکول اور سٹی آف گلاسگو کالج شامل ہیں، جو اعلیٰ درجے کے میری ٹائم پیشہ ور افراد کو تیار کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں جو عالمی سطح پر ہمارے اعلیٰ حفاظتی معیارات کو آگے بڑھاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جہاز ری سائیکلنگ پر ہانگ کانگ کنونشن کی توثیق کرنے پر پاکستان کو بھی مبارکباد دینا چاہتی ہوں۔پی آئی ڈی کی ڈی جی ارم تنویر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایک ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی کے ساتھ پاکستان کی منفرد جغرافیائی پوزیشن ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ہمارے سمندروں، ساحلی خطوں اور کمیونٹیز کے لیے گہرے مضمرات کے ساتھ ایک عالمی چیلنج ہے۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کے ایک ذمہ دار رکن کے طور پر پاکستان نے ماحول کے تحفظ اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لیے کئی قومی پالیسیاں متعارف کروائی ہیں جیسے کہ بلیو اکانومی کے اقدامات جن میں پائیدار ماہی گیری، سمندری قابل تجدید توانائی اور سمندری حیاتیاتی تنوع کا تحفظ شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ 2015 کی قومی جنگلاتی پالیسی کا مقصد ہمارے جنگلات کے رقبے کو بڑھانا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اطلاعات و نشریات کی وزارت ایک باخبر معاشرے کو فروغ دینے اور میڈیا کی ترقی کو آگے بڑھا کر ان قومی کوششوں کی حمایت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔انہوں نے ناٹیکل انسٹی ٹیوٹ کی پاکستان برانچ، انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ شپ بروکرز، چارٹرڈ انسٹی ٹیوٹ آف لاجسٹک اینڈ ٹرانسپورٹ اور پاکستان مرچنٹ نیوی آفیسرز ایسوسی ایشن کا اس اہم تقریب کے انعقاد میں ان کی کوششوں پر تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کیا۔اس موقع پر وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے ویڈیو بھی چلائ گئ جس میں ساحلی ورثے کا ایک اہم حصہ مینگروو کے ماحولیاتی نظام کو محفوظ رکھنے کی اہمیت کو واضح کیا گیا کہ مینگرووز طوفانوں کے خلاف قدرتی رکاوٹوں کے طور پر کام کرتے ہیں، ساحلی کٹاؤ سے بچاتے ہیں اور عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
0 تبصرے