ذوالفقار بھٹو صدارتی ریفرنس کی سماعت جنوری تک ملتوی

ذوالفقار بھٹو صدارتی ریفرنس کی سماعت جنوری تک ملتوی

ذوالفقار بھٹو صدارتی ریفرنس کی سماعت جنوری تک ملتوی

اسلام آباد (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے ذوالفقار بھٹو کے صدارتی ریفرنس میں عدالت کی معاونت کے لیے 9 معاونین مقرر کر دیئے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزا سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی، پیپلز پارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل منصور عثمان روسٹرم پر موجود تھے جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف بھی موجود تھے۔ صدر آصف علی زرداری بھی عدالتی کارروائی دیکھنے کے لیے کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ صدارتی ریفرنس ہے، کیا حکومت اب اسے چلانا چاہتی ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے ہدایات ہیں کہ حکومت صدارتی ریفرنس چلانا چاہتی ہے، ریفرنس 15 صفحات پر مبنی ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ صدارتی ریفرنس میں صدر ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ یہ ریفرنس کس صدر نے دائر کیا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آصف زرداری نے بطور صدر یہ ریفرنس بھیجا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی صدر نے صدارتی ریفرنس واپس نہیں لیا کہ یہ اب بھی عدالت کے اختیار میں ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ریفرنس پڑھنے کی ہدایت کی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریفرنس 15 صفحات پر مبنی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے صدارتی ریفرنس پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس کا فیصلہ دے چکی ہے اور نظرثانی کو بھی خارج کر دیا گیا ہے، ہم ختم کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ دوسرا نظرثانی نہیں سن سکتی، ایک کیس ختم ہوگیا،
عدالت بتائیں کیس میں قانونی سوال کیا ہے؟ فیصلہ یہ تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، یہ آئینی سوالات ہیں، جن کا جواب ضروری ہے۔
فاروق نائیک نے کہا کہ بھٹو کیس عوامی اہمیت کا تھا، جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ عوامی اہمیت کا سوال صدر مملکت کو دیکھنا چاہیے۔ عدالت نے یہ ریفرنس کس قانون کے تحت چلایا؟
اس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت جنوری تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا اور کیس میں 9 عدالتی معاونین کی تعیناتی کا بھی فیصلہ کیا گیا۔