کچے سے پکّے تک: بیزار ڈاکوؤں کی بحالی یا خطرناک تجربہ؟

پالیسی بمقابلہ حقیقت: کیا کچے کے بیزار ڈاکوؤں کو پکّے میں لانے سے مسائل ختم ہوں گے؟

کچے سے پکّے تک: بیزار ڈاکوؤں کی بحالی یا خطرناک تجربہ؟

گزشتہ منگل (21 اکتوبر) کو محکمہ داخلہ سندھ نے صوبے میں، خصوصاً لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت پر قابو پانے کے لیے پہلی جامع "سرینڈر پالیسی" کا اعلان کیا۔ اس پالیسی کے تحت دریائے سندھ کے دونوں کناروں کے کچے کے علاقوں میں روپوش ڈاکوؤں کو ہتھیار ڈالنے کی صورت میں جان و مال اور معاشی تحفظ فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی ہے تاکہ وہ سماجی دھارے میں واپس آ سکیں۔ پالیسی کے اجرا کے اگلے ہی روز شکارپور پولیس لائنز میں ایک غیر معمولی تقریب کا انعقاد کیا گیا، جہاں صوبائی وزیرِ داخلہ ضیا لنجار اور آئی جی غلام نبی میمن کی موجودگی میں 72 ڈاکوؤں نے دو سو سے زائد ہتھیار ڈال دیے۔ تقریب کے دوران ایک ایک ڈاکو کو ڈائس سے نام لے کر بلایا گیا — "اب تشریف لاتے ہیں سکھئیو تیغانی، جن کے خلاف 49 مقدمات اور 60 لاکھ روپے انعام مقرر تھا… اب باری ہے نثار سبزوئی کی، جن کے خلاف 82 مقدمات درج ہیں اور ان پر 30 لاکھ روپے انعام ہے۔" یوں ہتھیار ڈالنے والے ڈاکوؤں کی مجموعی انعامی رقم چھ کروڑ روپے سے زائد بنتی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق مزید دو سو سے زائد ڈاکو اس پالیسی سے فائدہ اٹھانے پر آمادہ ہو چکے ہیں، اور توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید مثبت پیش رفت سامنے آئے گی۔