کراچی: انٹرنیشنل ڈائبیٹیز فیڈریشن کی نائب صدر ارم غفور نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں 25 سال سے کم عمر کے 24 ہزار بچے اور نوجوان ٹائپ ون ذیابیطس کا شکار ہیں، جن کی زندگیوں کو انسولین نہ ملنے کی صورت میں خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ان بچوں کے مفت علاج کے لیے ملک بھر میں 27 خصوصی کلینکس قائم کیے جا چکے ہیں۔
کراچی پریس کلب کی ہیلتھ کمیٹی کی دعوت پر اپنے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ارم غفور نے کہا کہ یہ کلینکس “چینجنگ ڈائبیٹیز ان چلڈرن” پروگرام کا حصہ ہیں، جو دنیا کے 32 ممالک میں جاری ہے۔ پاکستان میں اب تک 3,300 بچے اس پروگرام کے تحت رجسٹرڈ ہو چکے ہیں، جنہیں مفت انسولین، گلوکومیٹرز، پین ڈیوائسز، نیڈلز اور ٹیسٹنگ اسٹرپس فراہم کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں خود 14 سال کی عمر میں ٹائپ ون ذیابیطس کی تشخیص ہوئی تھی، مگر انہوں نے اس بیماری کو کمزوری نہیں بلکہ طاقت بنایا۔ "بچوں کے درد کو میں سمجھ سکتی ہوں، اسی لیے مجھے یہ پروجیکٹ سونپا گیا۔"
ارم غفور نے کہا کہ 2025 تک 40 کلینکس قائم کرنے کا ہدف مقرر تھا، جس میں سے 27 مکمل ہو چکے ہیں جن میں 7 سندھ اور 9 پنجاب میں واقع ہیں۔ اب اس پروجیکٹ کی مدت 2030 تک بڑھا دی گئی ہے اور 6 ہزار بچوں تک رسائی کا ہدف رکھا گیا ہے۔
انہوں نے والدین کو مشورہ دیا کہ اگر ان کے بچے میں بار بار پیٹ درد، پیشاب، پیاس، قے، منہ کی بدبو یا سستی جیسی علامات ظاہر ہوں تو فوری ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ ٹائپ ون ذیابیطس ایک آٹوامیون بیماری ہے اور اس کی علامات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
اس موقع پر کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی، جوائنٹ سیکریٹری محمد منصف، سیکریٹری ہیلتھ کمیٹی حامد الرحمٰن، اور دیگر سینیئر صحافی بھی موجود تھے۔ کلب کی جانب سے ارم غفور کو اجرک اور شیلڈ بھی پیش کی گئی۔
ارم غفور کو انٹرنیشنل ڈائبیٹیز فیڈریشن کی نائب صدر منتخب ہونے والی پہلی پاکستانی اور پہلی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ اس الیکشن میں دنیا بھر کی 270 سے زائد ایسوسی ایشنز نے حصہ لیا تھا، جس میں انہوں نے 112 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔
0 تبصرے