کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے ارسا کی تشکیل، چولستان اور تھل کینالز کی تعمیر کے لیے پانی کی دستیابی کے سرٹیفکیٹ کے خلاف دائر درخواست پر اسٹے آرڈر جاری کر دیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ میں ارسا کی تشکیل اور نہروں کی تعمیر کے لیے پانی کی دستیابی کے سرٹیفکیٹ کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، جس پر وفاقی حکومت نے جواب جمع کرانے کے لیے مہلت طلب کی۔
عدالت نے وفاقی حکومت سے 18 اپریل تک تفصیلی جواب طلب کر لیا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ارسا میں سندھ کی نمائندگی کے لیے کوئی بھی وفاقی رکن مقرر نہیں کیا گیا، جس کے باعث ارسا کی تشکیل غیر قانونی ہے۔
وکیل نے کہا کہ ارسا کی غیر قانونی تشکیل کے بعد جاری کیے گئے تمام فیصلے بھی غیر قانونی ہیں۔ ارسا نے 25 جنوری کو چولستان اور تھل کینالز کی تعمیر کے لیے پانی کی فراہمی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ قانونی طور پر ارسا کے سرٹیفکیٹ کے خلاف عدالتی اسٹے آرڈر کے بعد مذکورہ نہروں پر تعمیراتی کام روک دینا چاہیے۔
دوسری جانب، سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر بیرسٹر ضمیر گھمرو نے کہا کہ 1992 کے ارسا ایکٹ کے تحت پانی کی تقسیم سے متعلق جو فیصلے ہوئے تھے، ان کی بنیاد پر ارسا کی جانب سے جاری کردہ سرٹیفکیٹ مکمل طور پر غیر قانونی ہے۔
کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بیرسٹر ضمیر گھمرو نے کہا کہ آبادگار قربان ميتلو کی جانب سے عدالت میں پٹیشن دائر کی گئی تھی، جس کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے نئی نہروں کی تعمیر پر عارضی پابندی عائد کر دی ہے۔
0 تبصرے