وفاق نے این ایف سی ایوارڈ سے ایک کھرب 77 ارب روپے کاٹ لیے، سندھ حکومت خاموش

وفاق نے این ایف سی ایوارڈ سے ایک کھرب 77 ارب روپے کاٹ لیے، سندھ حکومت خاموش

کراچی (میڈیا رپورٹس) وفاقی حکومت نے مالی سال 2024-25 میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت سندھ کے حصے سے ایک کھرب 7 ارب 77 کروڑ 94 لاکھ روپے کی کٹوتی کردی ہے، جس کے باعث سندھ میں جاری ترقیاتی منصوبے اور دیگر کئی کام شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ میڈیا رپورٹس دستاویزات کے مطابق وفاقی حکومت نے این ایف سی ایوارڈ کے تحت سندھ کو ملنے والی صرف تین سہ ماہی اقساط میں سے 11 کھرب 88 ارب 55 لاکھ روپے کے بجائے 10 کھرب 7 ارب 77 کروڑ 94 لاکھ روپے جاری کیے ہیں۔ دستاویزات کے مطابق انکم ٹیکس کی مد میں سندھ کے لیے مقرر کردہ 4 کھرب 60 ارب 80 کروڑ 70 لاکھ روپے میں سے صرف 4 کھرب 57 ارب 42 کروڑ روپے جاری کیے گئے۔ اسی طرح سیلز ٹیکس میں سندھ کے لیے طے شدہ 4 کھرب 20 ارب 14 کروڑ 83 لاکھ روپے میں سے 3 کھرب 41 ارب 93 کروڑ روپے جاری کیے گئے۔ سینٹرل ایکسائز ڈیوٹی میں سندھ کے لیے مقرر کردہ 80 ارب 96 کروڑ 79 لاکھ روپے میں سے صرف 60 ارب 63 کروڑ 29 لاکھ روپے دیے گئے ہیں۔ کسٹم ڈیوٹی کے تحت سندھ کے طے شدہ حصے 121 کھرب 28 ارب 86 کروڑ 76 لاکھ روپے میں سے صرف 1 کھرب 10 ارب 45 کروڑ 67 لاکھ روپے جاری کیے گئے اور باقی رقم کی کٹوتی کردی گئی۔ سرمایہ جاتی مالیت (کیپیٹل ویلیو) کی مد میں سندھ کے لیے مقرر کردہ 2 ارب 16 کروڑ 68 لاکھ روپے میں سے صرف 1 ارب 7 کروڑ 7 لاکھ روپے دیے گئے۔ قدرتی گیس کی رائلٹی میں سندھ کے لیے مختص 20 ارب 75 کروڑ 15 لاکھ روپے میں سے 38 ارب 18 کروڑ روپے جاری کیے گئے، جس میں 18 ارب روپے ایڈوانس میں دیے گئے۔ اسی طرح "آکٹرائے آن ضلعی ٹیکس" کی مد میں رکھی گئی 29 ارب 36 کروڑ 8 لاکھ روپے میں سے صرف 26 ارب 11 کروڑ روپے جاری کیے گئے۔ مجموعی طور پر این ایف سی ایوارڈ کے تحت سندھ کے تین سہ ماہی اقساط میں 11 کھرب 88 ارب 55 لاکھ روپے کے بجائے 10 کھرب 7 ارب 77 کروڑ 94 لاکھ روپے دیے گئے، اور وفاق نے سندھ کے حصے سے 1 کھرب 7 ارب 77 کروڑ 94 لاکھ روپے کی کٹوتی کی۔ سندھ کے حصے سے اتنی بڑی رقم کی کٹوتی کے باعث صوبے میں جاری ترقیاتی منصوبے، نئی اسکیمیں اور دیگر ترقیاتی و غیر ترقیاتی امور شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔ تاہم، سندھ حکومت نے اس بڑے پیمانے پر کٹوتی کے باوجود وفاق کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کیا۔ وزیراعلیٰ سندھ اور صوبائی محکمہ خزانہ کی جانب سے بھی اس معاملے پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔