“سب کو نیا سال مبارک! 2025 حقیقی آزادی کا سال ہے، جس میں گھٹنوں پر آئے اس جعلی اور فسطائی نظام کو شکست ہو گی، انشاء اللہ! عمران خان

پہلے میرے اسیر کارکنان اور رہنماؤں کو چھوڑا جائے اسکے بعد میری بات ہو گی۔ سابق وزیراعظم

“سب کو نیا سال مبارک! 2025 حقیقی آزادی کا سال ہے، جس میں گھٹنوں پر آئے اس جعلی اور فسطائی نظام کو شکست ہو گی، انشاء اللہ! عمران خان

چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی اڈیالہ جیل میں میڈیا سے گفتگو اور قوم کے نام پیغام:

سب کو نیا سال مبارک! 2025 حقیقی آزادی کا سال ہے، جس میں گھٹنوں پر آئے اس جعلی اور فسطائی نظام کو شکست ہو گی، انشاء اللہ!

اس آمرانہ دور میں شخصی آزادیوں کے خاتمے، بنیادی قانونی حقوق کی پامالیوں اور اداروں کی تباہی نے ملک کے ناصرف سماجی و سیاسی نظام بلکہ قانونی و معاشی نظام کو بھی درہم برہم کر دیا ہے۔جس بھونڈے انداز میں خالد خورشید کو 34 سال قید کی سزا سنائی گئی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں رول آف لا کا خاتمہ ہو چکا ہے اور غیر اعلانیہ بدترین آمریت کا راج ہے۔ مشرف دور میں بھی ہم فوج کی مداخلت پر تنقید کرتے رہے ہیں لیکن اسکے باوجود ہمیں اس قسم کی جبر و فسطائیت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ وکلاء تحریک سے پہلے بھی ہم فوج کی سیاسی مداخلت کے خلاف بھرپور تنقید کرتے تھے، لیکن تب کوئی ایجنسی اپنے شہریوں کو اس طرح سے نہیں اُٹھاتی تھی۔

آئینی عدالت بنا کر پورے عدالتی نظام کو تباہ کیا گیا اور قاضی فائز عیسی کی باقیات کو عدالتی نظام کا قبضہ دے دیا گیا تاکہ قاضی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے عدالتی فیصلے جی ایچ کیو کے زیر اثر کروائے جا سکیں۔

میرے خلاف پچھلے سال بھی چار غیر قانونی فیصلے دئیے گئے تھے۔ سوموار کو القادر کیس کا فیصلہ بھی ویسا ہی توقع کر رہا ہوں۔ ایسے ہی لا قانونیت پر مبنی فیصلے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ ملٹری کورٹس جیسے فیصلوں سے پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ جس ملک میں قانون کی حکمرانی نہ ہو وہاں کوئی سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہوتا ۔ پاکستان میں اب بھی گروتھ ریٹ صفر ہے جب معاشی ترقی ہی نہیں ہو گی تو نہ ہم قرضوں سے نکل پائیں گے اور نہ ہی بے روزگاری کا خاتمہ ہو گا۔

پاکستان کے فیصلے پاکستان میں ہی ہوں گے اس سے متعلق میرا موقف واضح ہے لیکن جب بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہوتا ہے تو پوری دنیا سے آوازیں اٹھنا فطری عمل ہے۔ اقوام متحدہ جیسے ادارے اسی لیے ہیں۔ دنیا کے تمام ذی شعور انسان بنیادی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ ارسطو نے بھی یہی کہا تھا ہر شہری کا فرض ہے انسانی حقوق کی پامالی ہو تو آواز اٹھائے۔ دو قسم کے لوگ ہی انسانی حقوق کی پامالیوں پر آواز بلند نہیں کرتے: ایک خودغرض اور دوسرے بزدل۔

ٹرمپ سے یہی توقع ہے کہ وہ نیوٹرل رہیں گے کیونکہ بائیڈن نے جنرل باجوہ کے اکسانے پر ہماری حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا کر واضح مداخلت کی تھی جو ساری دنیا جانتی ہے۔

ہماری مذاکراتی کمیٹی حکومت کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے، ہمارے مطالبات جائز ہیں:

- 26 نومبر اور 9 مئی پر جوڈیشل کمیشن کا قیام

- سیاسی قیدیوں کی رہائی

ڈی جی ائی ایس پی آر 9 مئی پر صریح غلط بیانی کر رہے ہیں۔ سیدھا اصول یہی ہے کہ جس نے سی سی ٹی وی فوٹیج چرائی اس نے ہی 9 مئی کروایا۔ ملٹری کورٹس سے فیصلے بھی اسی لیے کروائے گئے کہ وہاں کسی نے سی سی ٹی وی فوٹیج مانگنی ہی نہیں تھی۔ 26 نومبر کو سیدھی گولیاں مار کر ہمارے لوگوں کو شہید کیا گیا جب بھی ان دو واقعات کی شفاف تحقیقات ہوں گی دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔

ہم نے حکومت کو 31 جنوری تک کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ مذاکرات اور اسکے ساتھ ساتھ ترسیلاتِ زر کے بائیکاٹ کی مہم بھی جاری ہے۔ اگر حکومت نے ہمارے مطالبات کی منظوری میں سنجیدگی دکھائی تو بائیکاٹ مہم پہ دوبارہ غور کیا جا سکتا ہے۔

مجھے بالواسطہ طور پہ بنی گالہ منتقل کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔ میرا موقف واضح ہے کہ پہلے میرے اسیر کارکنان اور رہنماؤں کو چھوڑا جائے اسکے بعد میری بات ہو گی۔ اٹک جیل میں بھی مجھے تین سال تک باہر بھیجنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ لیکن میرا جینا مرنا پاکستان ہے۔ میں آخری سانس تک ملک کی آزادی کی جنگ لڑوں گا اور اپنی قوم سے بھی یہی امید کرتا ہوں۔”

#حق_کی_جیت_ہو_گی