سندھ پیپلز ہاؤسنگ فار فلڈ افیکٹیز (SPHF) پروجیکٹ کو بڑی شان و شوکت کے ساتھ شروع کیا گیا تھا، اور سیلاب متاثرین کو نئے گھر فراہم کرنے کے وعدے کیے گئے تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ پروجیکٹ ایک مایوسی کی تصویر بن کر رہ گیا ہے۔ سرکاری رپورٹوں میں دکھائی جانے والی کامیابی کے دعوے حقیقت کے برعکس ہیں، جہاں کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود متاثرہ خاندان آج بھی بے گھر اور بنیادی سہولتوں سے محروم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
غیر حقیقی دعوے اور عوام کی مایوسی:
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 90 فیصد سے زیادہ سیلاب متاثرہ خاندانوں کو گھر فراہم کیے جا چکے ہیں، مگر زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آج بھی سندھ کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں ہزاروں لوگ محفوظ رہائش سے محروم ہیں۔ لوگ مٹی کے کچے مکانوں میں رہنے پر مجبور ہیں، اور ان کی زندگی ابھی تک مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ سرکاری دعوے محض کاغذی رپورٹوں تک محدود ہیں اور عملی طور پر عوام کو کوئی حقیقی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔
وسائل کا ضیاع اور جھوٹی رپورٹوں کا جال:
SPHF پروجیکٹ میں کروڑوں روپے خرچ ہو چکے ہیں، مگر اس خرچ سے عوام کو کیا فائدہ ملا، یہ اب تک واضح نہیں ہو سکا۔ بظاہر جھوٹی کارکردگی رپورٹوں پر وسائل ضائع کرنے کے بجائے اگر یہ رقم براہ راست سیلاب متاثرین کی بحالی پر خرچ کی جاتی، تو ان کی زندگیوں میں شاید کچھ بہتری آ سکتی تھی۔ عوام میں یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ حکومت جھوٹی رپورٹوں اور بے بنیاد دعووں پر پیسہ کیوں ضائع کر رہی ہے؟
زمینی حقیقت: ایک تباہی سے نکلنے کے بجائے نئی تباہی میں داخل ہونا:
شدید بارشوں اور سیلاب کے بعد اس پروجیکٹ کا مقصد تھا کہ لوگوں کی زندگی دوبارہ بحال کی جائے اور انہیں محفوظ رہائش فراہم کی جائے۔ مگر آج بھی سندھ کے سیلاب متاثرہ لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ انہیں محفوظ اور پختہ گھر، بنیادی سہولتیں، اور تحفظ دینے کے بجائے صرف وعدے اور زبانی دعوے دیے جا رہے ہیں۔ عملی طور پر یہ پروجیکٹ زمینی حقائق پر مکمل ناکام دکھائی دیتا ہے۔
حقیقی تبدیلی کی ضرورت:
حکومت کو چاہیے کہ وہ عوامی وسائل کو ضائع کرنے کے بجائے ان کو لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرے۔ SPHF جیسے پروجیکٹس کو محض زبانی دعووں تک محدود رکھنے کے بجائے عملی طور پر موثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ سندھ کے سیلاب متاثرہ لوگ بہتر زندگی گزار سکیں۔ عوام کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حکومتی اداروں پر دباؤ ڈالا جا سکے اور حقیقی تبدیلی لائی جا سکے۔
نتیجہ:
SPHF جیسے پروجیکٹ اگر موثر طریقے سے نافذ کیے جاتے، تو سندھ کے سیلاب متاثرہ لوگ ایک نئی زندگی کی امید کر سکتے تھے۔ مگر سرکاری دعووں اور عملی کارکردگی میں فرق نے اس پروجیکٹ کو مایوسی میں بدل دیا ہے۔ حکومت کو سنجیدگی سے کام لیتے ہوئے عوامی وسائل کا صحیح استعمال کرتے ہوئے SPHF جیسے منصوبوں کو کامیابی سے مکمل کرنا چاہیے تاکہ عوام کو بہتر زندگی فراہم کی جا سکے۔
0 تبصرے