سنڌ ۾ 7 لاکھ بچے بھوکے پیٹ سوتے ہیں: سماجی اور حکومتی ناکامیوں پر جاگتے سوال

عبدالغفور سروہی

سنڌ ۾ 7 لاکھ بچے بھوکے پیٹ سوتے ہیں: سماجی اور حکومتی ناکامیوں پر جاگتے سوال

یونیسف کی تازہ رپورٹ ایک المناک حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے: ہر رات سندھ میں 7 لاکھ بچے بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہیں۔ یہ صرف ایک عدد نہیں بلکہ حکومتی پالیسیوں کی ناکامی، سماجی بے حسی، اور معاشرتی ناہمواری کا آئینہ دار ہے۔ جب معصوم بچے بھوک کا شکار ہوتے ہیں، تو یہ نہ صرف معاشرتی ہمدردی بلکہ ریاست کی ذمہ داریوں پر بھی سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ اس مضمون میں ہم نہ صرف بھوک اور غربت کی وجوہات پر روشنی ڈالیں گے بلکہ مستقبل کے پائیدار حل بھی پیش کریں گے۔ بھوک اور غذائی قلت کے اثرات: 7 لاکھ بچوں کا بھوکے سونا صرف ایک جذباتی یا وقتی مسئلہ نہیں بلکہ معاشرتی سانحہ ہے جو ان کی ذہنی، جسمانی اور تعلیمی ترقی کو متاثر کرتا ہے۔ 1. ذہنی اور جسمانی نشوونما متاثر ہوتی ہے: غذائی قلت بچوں کو کمزور اور بیماریوں کا شکار بنا دیتی ہے۔ 2. تعلیمی کارکردگی کم ہوجاتی ہے: بھوکے بچے تعلیم پر توجہ نہیں دے پاتے، جس سے ان کا مستقبل متاثر ہوتا ہے۔ 3. بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے: جسمانی قوتِ مدافعت کمزور ہونے سے بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ غربت اور بھوک کے بنیادی اسباب: 1. حکومتی پالیسیوں میں ناکامی اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم حکومت کی ناقص پالیسیوں اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے تعلیم، صحت، اور غذائی سہولیات عوام تک نہیں پہنچ پاتیں۔ کرپشن اور نااہلی صورتحال کو مزید خراب کر رہی ہیں۔ 2. معاشی بحران اور بے روزگاری بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غیر مستحکم معیشت کا براہِ راست اثر خاندانوں پر پڑتا ہے، جس سے والدین کے لیے بچوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ 3. قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیاں سندھ میں ہر سال آنے والی سیلاب اور خشک سالی نہ صرف زرعی پیداوار کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ غذائی قلت میں بھی اضافہ کرتی ہیں۔ 4. تعلیمی فقدان اور شعور کی کمی والدین میں تعلیمی اور غذائی شعور کی کمی کی وجہ سے بچوں کی مناسب نشوونما متاثر ہوتی ہے، اور وہ بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حکومت اور معاشرے کی ذمہ داریاں: 1. ایمرجنسی ریلیف پروگرامز کا نفاذ حکومت کو فوری طور پر غذائی بحران کے حل کے لیے ایمرجنسی پروگرام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکولوں میں مفت کھانے کی فراہمی اور سبسڈی اسکیموں کا اجرا ضروری ہے۔ 2. سماجی تحفظ کے منصوبے غربت سے متاثرہ علاقوں میں بچوں کے لیے صحت اور خوراک کی مفت سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ بیماریوں سے بچ سکیں۔ 3. سرمایہ داروں اور سماجی اداروں کا کردار فلاحی اداروں اور سرمایہ دار طبقے کو بھی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے غریب خاندانوں کی مدد کرنی چاہیے اور فلاحی منصوبے شروع کرنے چاہییں۔ 4. تعلیمی اور شعوری مہمات میڈیا اور تعلیمی اداروں کو آگاہی مہمات کے ذریعے عوام میں غذائیت کی اہمیت اجاگر کرنی چاہیے تاکہ والدین اپنے بچوں کی صحت کا بہتر خیال رکھ سکیں۔ پائیدار مستقبل کے لیے حل: 1. روزگار کے مواقع پیدا کرنا معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع بڑھا کر غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے، جس سے والدین بچوں کی بنیادی ضروریات پوری کر سکیں گے۔ 2. قدرتی آفات کے لیے پیشگی منصوبہ بندی قدرتی آفات کے اثرات سے نمٹنے کے لیے بہتر منصوبہ بندی اور بروقت امدادی اقدامات ضروری ہیں۔ 3. حکومت اور سول سوسائٹی کا تعاون سول سوسائٹی اور حکومت کو مل کر بھوک اور غربت کے خاتمے کے لیے جامع حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔ نتیجہ: جاگنے کا وقت: سندھ میں 7 لاکھ بچوں کا بھوکے سونا ریاست اور سماج کے ضمیر پر ایک بوجھ ہے۔ یہ بحران فوری اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر حکومت، سماج اور سرمایہ دار طبقہ آج بھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے گا تو آئندہ نسل غربت اور جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتی رہے گی۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ اپنے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرے، کیونکہ بھوک نہ صرف جسم کو بلکہ خوابوں کو بھی مار دیتی ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں کو تعلیم، صحت، اور خوراک جیسی بنیادی ضروریات فراہم نہیں کر سکتے، تو ترقی کے خواب ہمیشہ ادھورے رہیں گے۔ "ایک بھوکا بچہ پوری ریاست اور معاشرے کے ضمیر پر بوجھ ہے۔"