پاکستان جنوبی ایشیا وسطی ایشیا اور مشرق وسطی کے چوراہے پر واقع ہے اور خطے کے اہم ممالک سے قربت کی وجہ سے اہم جغرافیا ئی حیثیت رکھتا ہے۔ وادی سون سکیسرپاکستان کے سلسلہ کوہ نمک سالٹ رینج میں واقعہ ایک پہاڑی اسٹیشن اور قدرتی علاقہ ہے قدیم نمک کی کانوں اورآثار قدیمہ کی وجہ سے سالٹ رینج کی تاریخی اہمیت ہے۔ وادی سون سکیسر کی اچھوتی تاریخ آثارقدیمہ کے ماہرین مورخین اور محققین کے لیے ماضی کے رازوں کو دریافت کرنے کے لیے ایک کھلی دعوت کی طرح ہے۔ انسانی آبادی کی تاریخ یہاں بہت قدیم ہے۔ ریکارڈ شدہ تاریخ سے بھی پہلے وادی سون سکیسر کے پہاڑوں میں چقماق اور عقیق ناقصChert) (Fling & کے پتھربکژت پائے جاتے ہیں۔ چقماق وہ پتھر ہے جس سے انسان نے غار کے زمانہ میں آگ جلانا سیکھی ہو گی۔ اس پتھر کو اوزار سازی کے لیے بھی استعمال کی گیا۔ نیزے اور بھالے کے کنارے پر ان پتھروں کو لگا کر بطور اوزار یا شکار وغیرہ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ ماہرین اراضیات کے مطابق وادی سون سیکسر میں پائی جانے والی تہ دار چٹانیں 550ملین سال پرانی ہیں اور پاکستان میں سب سے پرانی چٹانیں کو ہ نمک کے سلسلہ میں موجود ہیں۔ اسی وجہ سے احمد غزالی نے وادی سون سیکسر کو "بوڑھی دھرتی" کا نام دیا ہے۔ اس خاصیت کی بدولت ماہرین اراضیات اس کو "ارضی علوم کا عجائب گھر" بھی کہتے ہیں۔
اس وادی میں بہت سی پرانی قدیم تہذیبیں آباد تھیں جنہوں نے اپنے وجود کے آثار چھوڑے ہیں۔ وادی سون سکیسر میں قدیم انسانوں کے ثبوت دنیا کی ابتدائی ترین تہذیبوں سے بہت پہلے سے مل سکتے ہیں۔ تقریبا 10 ہزار سال پہلے آخری برفانی دور کے بعد پاکستان کا شمالی حصہ اسی طرح آباد ہوا جس طرح وہ اب نظر اتا ہے۔ وادی سون شمالی پاکستان کے بالکل نچلے حصہ میں ہے۔تہذیبوں کے آغاز سے بہت پہلے وادی سون کی بہترین آب و ہوا جغرافیہ اور ماحول نے قدیم لوگوں کے لیے یہاں رہنے کے لیے بہترین بنا دیا۔پاکستان کے شمال میں برفانی علاقوں کے برعکس موسم گرما میں زیادہ گرم اور سردیوں میں زیادہ سرد نہیں تھا۔ معتدل اور بہترین درجہ حرارت کے باعث یہاں زندگی خوب پھیلی اور پھولی۔
انسانی تاریخ کے ارتقا کے مختلف ادوار گزرے ہیں۔ جن کو ماہرین آثار قدیمہ نے پیلیولھتک(Paleothic) میسولھتک(Mesolithic) اورنیو لھتک(Neo-Letiic) کے ناموں سے تعبیر کیا۔قدیم پتھر کا زمانہ پیلیولھتک دو لاکھ 50 ہزار سال سے 10 ہزار سال قبل مسیح تک محیط ہے اس دور کا انسان شکاری تھا پتھر کے سادہ اُوزار کا استعمال کیا جاتا تھا آرٹ کی ابتدائی اشکال مثلاً غاروں میں بنائی جانے والی تصاویر کا آغاز ہوا۔ میسولھتک یعنی درمیانہ پتھر کا دور یہ زمانہ 10 ہزار قبل مسیح سے 8 ہزار قبل مسیح پر مشتمل ہے اس زمانہ میں زرعی پیداوار کاآغاز ہوا پتھر کے اُوزار دیا وہ بہترین شکل اختیار کر گئے لیکن لوگ اب بھی شکاری تھے۔لیکن اس دور میں انسانوں نے جانوروں کو پالنا اور فصلیں اگانا شروع کر دیا۔ نیو لھتک یعنی بعد کے پتھر کا زمانہ ا کا تعلق 8 ہزار قبل مسیح سے 3 ہزار سال قبل مسیح تک ہے۔اس دور میں مستقل انسانی آبادی کا آغاز ہوا۔ زراعت اور اُوزار بہتری کی طرف آئے۔ انسانی تاریخ کے مختلف ادوار کے مختصر تعارف کا مقصد یہ بتانا ہے۔کہ وادی سون سکیسر کی انسانی آبادی کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے اگر ماہرین آثار قدیمہ مختلف مقامات پر باضابطہ کھدائیاں کریں تو اس امر کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔
پتھر کے دور میں غاروں اور قدرتی پناہگاہوں میں مختلف ادوار میں انسانی نسل یہاں پروان چڑھی۔سون سیکسر میں قدرتی غاریں کافی تعداد میں موجود ہیں مقامی زبان میں غار کو "میہلہ"کہاجا تا ہے۔ حتی الامکان ہے کہ یہی غاریں قدیم ترین انسانوں کی قیام گاہیں رہی ہیں کیونکہ یہ غاریں موسم کی سختیوں اور جنگلی جانوروں سے بچانے کا موثر ہتھیار تھیں۔فی زمانہ یہ غاریں مویشیوں اور چرواہوں کی عارضی پناہ گاہیں ہیں جو انکو بارش اور طوفان سے بچانے میں مددگار ہیں ان غاروں کی کھدائی سے ماضی کے انسان کے بہت سے سربستہ راز افشا ہو سکتے ہیں۔
ابھی تک ہم صرف نوع بشر کے بارے میں جانتے ہیں لیکن اگر ماہرین آثار وادی سون میں انسانی آبادی کی تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو ہومو سپنسر سے قبل ہومو ہیبلیس(Homo Habilis) انسان جیسی ناپید مخلوق Australopithecus(آسڑل اوپیتھی)اور راما پیتھکس (Ramapithecus) کے مزید آثار بھی مل سکتے ہیں۔ راما پیتھکس کس کے قدیم ترین انسانی فوسلز پوٹھوہارکے علاقہ میں دریافت ہوئے۔ ہو سکتا ہے ان اقسام میں سے کوئی انسان وادی سون سکیسر کے پہلے باشندے ہوں۔وادی خوبصورت چشموں اورآبشاروں پر مشتمل ہے ان جگہوں پر خوراک کی بھی بہتات ہے۔پہاڑوں پر شکار کرنا بھی قدرے آسان ہوتا ہے۔ اس بات کا بھی امکان ہے۔ کہ پانی اور شکار کی دستیابی کی بدولت قدیم ترین انسان نے اس قدرتی حسن سے مالا مال وادی کو اپنا مسکن بنایا ہے۔
ابھی تک ہم صرف نوع بشر یعنی ححومو سیپینز کے بارے میں جانتے ہیں لیکن اگر ماہرین آثا ر قدیما وادی سون میں انسانی آبادی کی تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو ہومو سپنسر سے قبل ہومو ہیبلیس(Homo Habilis) انسان جیسی ناپید مخلوق Australopithecus(آسڑل اوپیتھی)اور راما پیتھکس (Ramapithecus) کے مزید آثار بھی مل سکتے ہیں۔ راما پیتھکس کس کے قدیم ترین انسانی فوسلز پوٹھوہارکے علاقہ میں دریافت ہوئے۔ ہو سکتا ہے ان اقسام میں سے کوئی انسان وادی سون سکیسر کے پہلے باشندے ہوں۔وادی خوبصورت چشموں اورآبشاروں پر مشتمل ہے ان جگہوں پر خوراک کی بھی بہتات ہے۔پہاڑوں پر شکار کرنا بھی قدرے آسان ہوتا ہے۔ اس بات کا بھی امکان ہے۔ کہ پانی اور شکار کی دستیابی کی بدولت قدیم ترین انسان نے اس قدرتی حسن سے مالا مال وادی کو اپنا مسکن بنایا ہے۔
وادی سن سکیسر اپنے محل وقوع اور جغرافیائی خدوخال کی بدولت ایک اہم قدیم گزر گاہ رہی ہے۔ سکندرِ اعظم نے اس علاقے سے گزرتے ہوئے ہندوستان فتح کیا۔ سلطان محمود غزنوی، محمد غوری اور دیگر مسلمان فاتحین افغانستان کی طرف سے آتے ہوئے اٹک کے جنوب سے ہوتے ہوئے وادی سون سکیسر کی پہاڑیوں کو عبور کرتے تھے۔ وہ شاہ پور کے میدان سے ہوتے ہوئے لاہور یا ملتان پہنچتے تھے اور اسی راستے سے واپسی بھی ہوتی تھی۔
ہندو اس وادی کے قدیم باشندوں میں سے ہیں۔چھٹی صدی قبل مسیح میں یہ علاقہ قدیم ایرانی حکمرانوں کے زیر تسلط تھا۔ چوتھی صدی قبل مسیح سے لے کر دوسری صدی قبل مسیح تک یہ علاقہ موریہ سلطنت کے ماتحت رہا۔اشوکا اس دور کا عظیم شہنشاہ گزرا ہے۔ اس نے بدھ مذہب کی سرپرستی کی اور وادی سون کے طول و عرض میں بدھ مذہب کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔ موریہ سلطنت کے زوال کے بعد وادی سون سکیسر میں کئی خاندانوں اور حملہ اوروں نے حکومت کی۔ جیسا کہ کشان اور ہنز۔ محمد بن قاسم نے کم عمری میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑے۔ دسویں صدی
عیسوی میں برصغیر میں سلطان محمود غزنوی کی آمد کے بعد اسلام نے اپنا پرچم سر بلند کیا۔ وادی سون سیکسراس کے بعد انگریزوں کی آمد تک مسلمانوں کے زیر تسلط رہا اور اسلام کو خوب فروغ حاصل ہوا۔
اس حسین اور پرُامن وادی میں جانے والے لوگ ایک انجانی خوشی، سرشاری اور سکون محسوس کرتے ہیں۔ خواہ ان کا تعلق اس وادی کے آبائی باشندوں سے ہو یا وہ باہر سے سیر کی غرض یا قیام کے لیے آئے ہوں۔ ایک پُرسرار قوت ہے، ایک مقناطیسی کشش ہے جو وادی سون سکیسر کی فضاؤں میں انسانوں کو محسور کیے رکھتی ہے۔
0 تبصرے