فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل؛ فل کورٹ بنانے کی حکومتی درخواست مسترد

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ سویلین پر فوجی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟

فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل؛ فل کورٹ بنانے کی حکومتی درخواست مسترد

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے خلاف کیس میں فل کورٹ بنانے کی حکومتی درخواست مسترد کردی۔ سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے۔ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ میں لیاقت حسین کیس 1999 سے اصول طے ہے کہ آرٹیکل 83Aکے تحت فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا، عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں، کہ ملزمان کا براہِ راست تعلق ہو تو ہی فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے، سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق تعلق جوڑنے اور آئینی ترمیم کے بعد ہی سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے، اگر ملزمان کا تعلق ثابت ہوجائے تو پھر کیا ہوگا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیر ٹرائل کیا گیا تھا۔ عابد زبیری نے دلائل دیے کہ بنیادی نقطہ یہ ہے کہ جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسے جوڑا جائے گا، جو سویلینز افواج کی تحویل میں ہیں ان کا فوجی ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہو سکتا، پہلے سویلنز کا فوج یا دفاع کیخلاف تعلق جوڑنا ضروری ہے، اگر ملزمان کا فوج یا دفاع سے کوئی تعلق ہے تو پھر فوجی ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم ناگزیر ہے، ملزمان کو سزاوں کیخلاف ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ آپ کے مطابق سویلنز کو آئینی تحفظ ہے اور فوجی ٹرائل کیلئے دفاع یا افواج کیخلاف ملزمان کا تعلق جڑنا ضروری ہے۔ عابد زبیری نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں یہ ٹرائل آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہے، کچھ ملزمان کو چارج کیا جارہا ہے کچھ کو نہیں، اگر آپ نے خصوصی ٹرائل کرنا ہے تو آئینی ترمیم سے خصوصی عدالت بنانا ہی ہو گی، فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلانے والے جوڈیشل نہیں،ایگزیکٹیو ممبران ہوتے ہیں، ٹرائل کے بعد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں جوڈیشل ری ویو ملنا چاہیے، 21ویں اور 23ویں ترامیم خاص مدت کےلئےتھیں، 21ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ نے اجازت تو دی لیکن سپریم کورٹ ہائیکورٹ میں ریویو کا اختیار بھی دیا۔ جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں پہلے پولیس گرفتار کر کے عام عدالتوں میں فرد جرم لگوائے پھر معاملہ ملٹری کورٹس جائے؟ کیس پہلے عام عدالت میں چلے پھر ملٹری کورٹس جاسکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ لیاقت حسین کیس میں کہا گیا ملٹری اتھارٹیز تحقیقات کرسکتی ہیں سویلین کا ٹرائل نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کس پر آرمی ایکٹ لگے گا کس پر نہیں؟۔ عابد زبیری نے جواب دیا کہ تحقیقات کرنا پولیس کا کام ہے، پولیس ہی فیصلہ کرے گی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ سویلین پر فوجی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟