برطانیہ میں بچوں سے متعلق سخت قوانین کے باعث متاثرہ نوجوان کا نام اور جنس ظاہر نہیں کی گئی
لندن: برطانوی نشریاتی ادارے کے میزبان نے ایک نوجوان سے تین سال کے دوران اس کی برہنہ تصاویر خریدیں۔
دی سن اخبار نے یہ ہولناک انکشاف اپنی ایک رپورٹ میں کیا تھا جس میں نوجوان کی والدہ نے بی بی سی کے میزبان پر پیسوں کا لالچ دیکر نوجوان سے فحش تصاویر بنوانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
نوجوان کی والدہ نے دعویٰ کیا تھا کہ بی بی سی کے میزبان فحش تصاویر تین سال سے بنوا رہا ہے اور اب 20 سال کی عمر میں آکر میری اولاد شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہے۔
بی بی سی سے یہ رپورٹ شائع ہوتے ہی اپنے ایک میزبان کو نوکری سے معطل کردیا تاہم شناخت ظاہر نہیں کی گئی اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ میزبان کو کس جرم کی پاداش میں معطل کیا گیا۔
اسکینڈل سامنے آنے کے بعد بی بی سی پر ملازم کے خلاف سخت کارروائی کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے جس پر ایچ آر ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ ہمیں متعلقہ ملازم کے ساتھ شفاف اور منصفانہ رویہ رکھنے کو بھی یقینی بنانا ہوتا ہے۔
ادھر بی بی سی کے ایک وکیل نے ان الزمات کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ متاثرہ نوجوان نے جمعے کی شام سن اخبار کو تردید بھیجی اور اس رپورٹ کو لغو قرار دیا۔
جس پر دی سن ٹیبلوئڈ کے ترجمان نے کہا کہ ہم نے دو انتہائی فکر مند والدین کے بارے میں ایک کہانی رپورٹ کی ہے جنہوں نے بی بی سی کے اینکر کے رویے اور اپنی اولاد کی فلاح و بہبود کے بارے میں شکایت کی تھی۔
بی بی سی نیوز جواب دیا کہ نے متاثرہ نوجوان کی شناخت کا علم نہیں تھا اور نہ ہی مذکورہ نوجوان نے ان سے براہ راست بات کی اور نہ ہی کسی نے شواہد دیکھے تھے۔
یاد رہے کہ برطانیہ میں جنسی تعلقات کے لیے رضامندی کی عمر 16 سال ہے لیکن 18 سال سے کم عمر کی تصاویر کو چائلڈ پورنوگرافی سمجھا جا سکتا ہے۔
لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے اس معاملے پر کہا کہ ہم نے یہ سب میڈیا میں سنا ہے اب تک کسی نے پولیس میں شکایت درج نہیں کرائی لیکن ہماری کرائم کمانڈ کے ماہر جاسوسوں نے پیر کو بی بی سی کے ساتھ ایک آن لائن میٹنگ کی ہے۔
برطانیہ میں بچوں سے متعلق سخت قوانین کے باعث متاثرہ نوجوان کا نام اور جنس ظاہر نہیں کی گئی۔ بی بی سی اینکر کی شناخت بھی ظاہر نہیں کی گئی۔
0 تبصرے