ٹائی ٹینک جہاز کے چند حیران کن اسرار اور حقائق

اس بچے کی شناخت میوزیم کو عطیہ کیے گئے جوتوں اور ڈی این اے کے ذریعے لگ بھگ 100 سال بعد ہوئی۔

ٹائی ٹینک جہاز کے چند حیران کن اسرار اور حقائق

بحر اوقیانوس میں غرق ہونے والے بحری جہاز ٹائی ٹینک کے ملبے کو دیکھنے کے لیے جانے والی آبدوز لاپتہ ہوگئی ہے جس کی تلاش جاری ہے۔ اس آبدوز میں سوار افراد کو بچانے کے لیے امدادی ٹیموں کے پاس 70 سے 96 گھنٹے کا وقت ہے، جس کے بعد آبدوز میں آکسیجن ختم ہو جائے گی۔ ٹائی ٹینک اپریل 1912 میں ڈوبا تھا، یعنی اسے غرق ہوئے 111 سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے مگر یہ بحری جہاز اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہے۔ 10 اپریل 1912 کو اپنے پہلے سفر پر روانہ ہونے والا یہ بحری جہاز اس وقت کا سب سے بڑا بحری جہاز تھا جسے تیار کرنے والوں کا دعویٰ تھا کہ اس کا ڈوبنا ممکن ہی نہیں۔ مگر یہ کینیڈا کے ساحلی علاقے نیو فاؤنڈ لینڈ سے تقریباً 600 کلومیٹر دوربرفانی تودے سے ٹکرا کر غرق ہوگیا اور اس میں سوار ڈیڑھ ہزار مسافر اور عملے کے افراد ہلاک ہوگئے۔ ڈوبنے کے بعد اس جہاز کا ملبہ بھی ایک معمہ بن گیا تھا اور 7 دہائیوں سے زائد عرصے بعد 1985 میں اسے دریافت کیا گیا تھا۔ تو دنیا مشہور ترین بحری ملبے کے ایسے حقائق جانیں جو دنگ کر دینے والے ہیں۔ خاموش فلموں میں کام کرنے والی امریکی اداکارہ ڈورتھی گبسن ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کے بعد بچ جانے والے 700 مسافروں میں شامل تھیں۔ اس حادثے سے بچ جانے کے بعد نیویارک پہنچ کر انہوں نے فوری طور پر سیوڈ فرام دی ٹائی ٹینک نامی فلم پر کام شروع کیا، جس میں حادثے کو دکھایا گیا تھا۔ یہ فلم مئی 1912 میں یعنی حادثے کے ایک ماہ بعد ریلیز ہو گئی تھی اور اداکارہ نے وہی کپڑے اور جوتے پہن کر کام کیا، جو حادثے کے وقت ان کے جسم پر تھے۔ یہ فلم تو کامیاب رہی مگر اس کے پرنٹ آتشزدگی کے باعث تباہ ہوگئے۔ ٹائی ٹینک کے تھرڈ کلاس کمپارٹمنٹس میں 700 سے ایک ہزار مسافر موجود تھے مگر انہیں دستیاب سہولیات نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان مسافروں کے لیے نہانے کے بس 2 ٹب دستیاب تھے۔ ٹائی ٹینک کے نگران فریڈرک فلیٹ اور ریگنالڈ لی کو سفر کے دوران دوربینوں تک رسائی نہیں ملی، جس کے باعث وہ بہت دور تک نہیں دیکھ سکتے تھے۔ جہاز کے سیکنڈ آفیسر کو آخری وقت میں تبدیل کیا گیا تھا اور وہ اس لاکر کی چابی بھول گیا جس میں دوربینیں رکھی تھیں، جس کے باعث عملے کے پاس دوربینیں موجود نہیں تھی۔ یہ چابی 2010 میں ایک لاکھ 30 ہزار ڈالرز میں نیلام ہوئی۔ 1912 کی سرکاری تحقیقات کے مطابق دوربینیں نہ ہونے کے باعث برفانی تودہ جہاز ٹکرانے سے محض 37 سیکنڈ پہلے نظر آیا۔ جہاز کی تعمیر کے دوران حادثات کے باعث 8 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے محض 5 کے نام اب معلوم ہیں۔ جان جیکب آسٹر 4 کو اس عہد میں دنیا کا امیر ترین شخص تصور کیا جاتا تھا جو 15 کروڑ ڈالرز (موجودہ عہد کے ساڑھے 4 ارب ڈالرز کے برابر) کے مالک تھے۔ وہ ٹائی ٹینک کے ذریعے برطانیہ سے اپنے گھر واپس جا رہے تھے جب حادثے کے باعث ہلاک ہوئے۔ وائلٹ جیسوپ نامی خاتون کو خوش قسمت یا بدقسمت ترین خاتون قرار دیا جاتا ہے۔ وہ پہلے ٹائی ٹینک اور پھر Britannic بحری جہاز ڈوبنے کے واقعات میں بچنے میں کامیاب رہی تھیں۔ ٹائی ٹینک کے حادثے کے وقت ان کی عمر 25 سال تھی اور اس کے 4 سال بعد یعنی 1916 میں Britannic کے حادثے میں بھی بچ گئی تھی جو ایک بارودی سرنگ سے ٹکرا کر تباہ ہوا۔ 1898 میں شائع ہونے والے ایک ناول Futility میں ٹائی ٹینک جیسے حادثے کی پیشگوئی کی گئی تھی۔ یہ ناول ایسے بحری جہاز کے بارے میں تھا جس کا نام ٹائٹن تھا اور وہ اپنے پہلے سفر کے دوران اپریل کے مہینے میں برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوب جاتا ہے۔ ناول میں بھی جہاز کو کبھی غرق نہ ہونے والا کہا گیا تھا اور اس میں بھی لائف بوٹس کی تعداد اتنی ہی تھی جتنی ٹائی ٹینک میں تھی۔ اگرچہ یہ اپنے عہد کا سب سے بڑا بحری جہاز تھا اور اس کے سفر کا روٹ بھی معلوم تھا مگر اس کا ملبہ 7 دہائیوں کی جدوجہد کے بعد ملا۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ امریکی بحریہ کے ایک خفیہ مشن کے دوران ٹائی ٹینک کو دریافت کیا گیا۔ جہاز کے ساتھ ہلاک ہونے والے 1500 میں سے محض 300 افراد کی لاشیں مل سکیں جن میں سے ایک بچے کی لاش بھی شامل تھی۔ اس بچے کی شناخت میوزیم کو عطیہ کیے گئے جوتوں اور ڈی این اے کے ذریعے لگ بھگ 100 سال بعد ہوئی۔