دنیا کے مہذب معاشروں میں مذہبی آزادی، شخصی وقار اور آزادیِ رائے کو بنیادی انسانی حق سمجھا جاتا ہے۔ ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عقیدے، مذہب اور ثقافتی اقدار کے مطابق زندگی گزارے۔ مگر افسوس کہ آج کا بھارت ان بنیادی انسانی اصولوں سے تیزی سے دور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
بھارتی ریاست بہار میں ایک سرکاری تقریب کے دوران وزیراعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے ایک مسلمان لڑکی کے چہرے سے زبردستی نقاب اتارنے کی کوشش ایک انتہائی شرمناک، قابلِ مذمت اور گھٹیا عمل ہے۔ یہ واقعہ محض ایک لڑکی کی توہین نہیں بلکہ کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات، شخصی آزادی اور انسانی وقار پر براہِ راست حملہ ہے۔
نقاب کسی عورت کی کمزوری نہیں بلکہ اس کا ذاتی، مذہبی اور آئینی حق ہے۔ کسی بھی اعلیٰ منصب پر فائز شخص کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ طاقت کے نشے میں کسی کے لباس، عقیدے یا شناخت کو چیلنج کرے۔ وزیراعلیٰ نتیش کمار کا یہ عمل جمہوری اقدار کے منافی اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔
بدقسمتی سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت، تعصب اور امتیازی سلوک اب انفرادی واقعات نہیں رہے بلکہ ریاستی سرپرستی میں ایک سوچ کے طور پر فروغ پا رہے ہیں۔ کبھی حجاب پر پابندی، کبھی عبادت گاہوں کی بے حرمتی اور کبھی اس نوعیت کے واقعات بھارت کے نام نہاد سیکولر تشخص کو بے نقاب کر رہے ہیں۔
پاکستان اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ ہم عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بھارت میں اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں، کے ساتھ ہونے والے اس طرح کے توہین آمیز اور ظالمانہ رویّوں کا نوٹس لیں۔ خاموشی اختیار کرنا بھی ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔
یہ واضح حقیقت ہے کہ کسی عورت کے لباس پر ہاتھ ڈالنا دراصل اس کی آزادی، عزت اور خودمختاری پر حملہ ہے۔ نتیش کمار کا یہ عمل بھارت کے دعووں اور حقیقت کے درمیان موجود گہرے تضاد کو دنیا کے سامنے لاتا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ عالمی ضمیر جاگے۔ مذہب، لباس اور شناخت کے نام پر کسی بھی انسان کی تذلیل قابلِ قبول نہیں۔ مسلمان لڑکی کا نقاب اس کی عزت، اس کی پہچان اور اس کا بنیادی حق ہے—اور اس حق کو پامال کرنے والا ہر عمل قابلِ مذمت اور قابلِ احتساب ہے
0 تبصرے