"آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بعد انڈیا خود مشکل میں پڑچکا، لداخ نے علیحدہ ریاست کا مطالبہ کردیا، ڈاکٹر نوشین وصی

کشمیر یومِ سیاہ کی مناسبت سے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے کراچی دفتر میں سیمینار منعقد

کراچی: کشمیر یومِ سیاہ کی مناسبت سے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے کراچی دفتر میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس میں بین الاقوامی امور کی ماہر پروفیسر ڈاکٹر نوشین وصی نے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا نے کشمیر میں بہت زیادہ استحصال کیا ہے، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں، ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہوچکے، لاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوج کشمیر میں تعینات ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صرف چند ہفتے قبل ہی لداخ میں بی جی پی حکومت کے خلاف عوام نے احتجاج کیا اور پارٹی دفتر کو آگ لگا دی۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ہمیں ریاست کا درجہ دیا جائے تاکہ گورننس بہتر ہو، آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بعد انڈیا خود مشکل میں پڑچکا ہے کیونکہ اس سے کشمیر نہیں سنبھل رہا۔ ڈاکٹر نوشین وصی نے تاریخ کے اوراق پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے کہا تھا کشمیر پاکستان کو دے دیں، یہ انڈیا کا رستا ہوا زخم بن جائے گا، آج واقعتاً کشمیر بھارت کا رِستا ہوا زخم بن گیا، اتنی ترقی کے باوجود انڈیا شرمندگی کا شکار ہے، رواں برس مئی میں چار دن کی جنگ نے انڈیا کو بےنقاب کردیا، اس چار روزہ جنگ کے دوران خود بھارتی تجزیہ کاروں نے بی جے پی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کی 60 فیصد آبادی خطِ غربت کے نیچے ہے، قبل ازیں جنوری میں بین الاقوامی مبصرین کے تجزیے آرہے تھے کہ انڈیا میں معاشی عدم مساوات برطانوی راج کے دور سے زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈیا کی 18 ریاستوں میں شورش جاری ہے، مودی کی سیاست نے انڈیا کی سماجی ڈھانچے کو بھی تباہ کیا ہے۔ مودی کی انتہاپسند حکومت ہوتے ہوئے پاکستان اور انڈیا کے درمیان بات چیت کا کوئی راستہ نہیں ہے، مودی بات کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے، اس نے پارلیمنٹ میں اکھنڈ بھارت کا نقشہ لگا رکھا ہے، ایسے میں پاکستان کی طرف سے استدلال پر مبنی موقف کو بھارت میں نہیں سنا جارہا۔ انہوں نے کہا کہ 1948، 1965، 1999، 2019 پلوامہ اور اب رواں برس مئی میں پاکستان اور انڈیا کی جنگیں کشمیر پر ہوئیں، پاکستان نے نہایت کامیابی کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر زندہ رکھا، آپریشن بنیان المرصوص میں پاکستان سفارتی سطح پر ایک سمجھدار ریاست کے طور پر ابھرا، کامیاب سفارت کاری کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان اپنی جگہ بناتا جارہا ہے، کشمیر کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ پاکستان ایٹمی ریاست بن گیا، اسرائیل نے غزہ پر حملے کے دوران 6 ہمسایہ ملکوں پر حملہ کیا، پاکستان کو اگر کسی نے بچایا تو وہ ہمارے ایٹمی ہتھیار ہیں۔ 27 اکتوبر کی تاریخی اہمیت بتاتے ہوئے ڈاکٹر نوشین وصی نے کہا کہ اس روز 1947 میں انڈیا نے غیرقانونی طور پر اپنی فوج کشمیر میں اتاری، مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947 کو انڈیا کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کیے جو کہ غیرقانونی تھا کیونکہ کشمیر نے پاکستان کے ساتھ standstill agreement کیا ہوا تھا، دوسری جانب برطانوی راج کی طرف سے 3 جون 1947 کو پیش کیے گئے تقسیم کے منصوبے کے مطابق شاہی ریاستوں نے انڈیا یا پاکستان میں سے کسی کے ساتھ بھی الحاق کرتے ہوئے عوام کی خواہشات کو فوقیت دینا ہوگی، لیکن مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے باوجود انڈیا سے الحاق کا معاہدہ کیا، تو 27 اکتوبر کو ہم اور کشمیری یومِ سیاہ اس لیے مناتے ہیں کہ اس دن انڈیا نے اپنی فوج کشمیر میں اتاری۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈیا کی فوج آنے کے باوجود مہاراجہ ہری سنگھ اور انڈیا دونوں کو شکست ہورہی تھی اور جدوجہدِ آزادیءِ کشمیر کے کارکن علاقے آزاد کرا رہے تھے، انڈیا کو یہ فکر ہوئی کہ جتنی تیزی سے آزاد کشمیر کا یہ علاقہ آزاد ہوا ہے اس طرح تو پورا کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا، یوں انڈیا اس مسئلے کو لے کر اقوام متحدہ چلا گیا۔ اقوام متحدہ نے جنگ بندی کا اعلان کیا اور جتنا علاقہ جدوجہدِ آزادیءِ کشمیر کے کارکن آزاد کراچکے تھے اس میں اقوام متحدہ نے لائن آف کنٹرول بنا دی۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا کے پہلے وزیراعظم نہرو نے وعدہ کیا تھا کہ کشمیر میں استصواب رائے کروائیں گے اور 1948 میں اقوام متحدہ نے کمیشن برائے پاکستان اور انڈیا بھی بنایا (UNCIP) جس نے شرائط رکھیں کہ استصواب رائے کیلئے کشمیر سے فوج نکالی جائے جسے انڈیا نے ماننے سے انکار کیا جبکہ پاکستان نے موقف اختیار کیا کہ اگر انڈین فوج یہاں تعینات رہی تو استصواب رائے دھاندلی زدہ ہوگا۔ ڈاکٹر نوشین وصی نے بتایا کہ بعد ازاں ایک ڈکسن پلان دیا گیا جس کے مطابق انڈیا پاکستان دونوں اپنی فورسز واپس بلالیں تو ہمارے مبصر گروپس کی موجودگی میں استصواب رائے ہوجائے گا، انڈیا نے اس کو بھی ماننے سے انکار کردیا۔ پھر دونوں ملکوں نے کشمیر کو متنازع علاقہ مانتے ہوئے اپنے اپنے آئین میں اسے خصوصی آئینی حیثیت دی جسے بعد ازاں انڈیا 2019 میں ختم کرچکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق صدرِ مملکت جنرل پرویز مشرف نے موجودہ حالات کے تناظر میں کشمیر کا چار نکاتی فارمولہ پیش کیا جسے پوری دنیا نے بہت معقول تسلیم کیا، اس فارمولے کے مطابق انڈیا اور پاکستان اس خطے سے فوجیں نکال کر کشمیر ویلی کو بارڈر فری کردیں، کیونکہ کشمیر ویلی میں مسلم اکثریت ہے تو لامحالہ اس نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونا ہے لیکن ہم سب کو یاد ہے کہ کس طرح اس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ عین دستخط کے دن اپنی بات سے پیچھے ہٹ گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کی پاکستان کیلئے اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ ہمارے پاس جو پانی آتا ہے اس کا واٹر ہیڈ کشمیر میں ہے، تقسیم کے منصوبے کے مطابق فیروزپور کا علاقہ پاکستان کو ملنا تھا کیونکہ وہاں مسلم اکثریت تھی لیکن انڈیا نے تقسیم کے منصوبے کو اور باؤنڈری ایوارڈ میں ہیراپھیری کی، اگر گورداس پور اور فیروزپور پاکستان کے پاس آتے تو شاید مسئلہ کشمیر کھڑا ہی نا ہوتا۔ سیمینار کے اختتام پر ڈائریکٹر جنرل پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ محترمہ اِرم تنویر صاحبہ نے کشمیری عوام کیلئے پاکستان کی غیرمتزلزل حمایت کے عزم کو دہرایا، انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کی صعوبتوں کو اجاگر کرنے کیلئے حقائق پر مبنی گفتگو ہونی چاہیے تاکہ ہم عالمی سطح پر بھی کشمیر کا کیس موثر انداز میں پیش کرسکیں۔