ہر سال 5 دسمبر کو، اقوامِ متحدہ کے اعلان کے مطابق عالمی سطح پر "رضاکاروں کا دن" منایا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ دن صرف کیلنڈر پر درج ایک تاریخ نہیں، بلکہ ان لوگوں کی یاد اور عزت کا اعتراف ہے جو بنا کسی نمائش، بنا کسی اجرت اور کسی صلے کی خواہش کے بغیر، انسانیت کا بوجھ اپنے تھکن نہ ماننے والے کندھوں پر اٹھائے رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بھی یہ دن اکثر ان لوگوں کے لیے فوٹو سیشن بن جاتا ہے جو عملی خدمت سے زیادہ کیمروں کی چمک کے قریب ہوتے ہیں۔ اسٹیج پر بیٹھے افراد، شیلڈز لینے والے بڑے نام، پروٹوکول کے ساتھ آنے والے نمائندے… مگر ان قطاروں میں اکثر وہ چہرے گم ہوتے ہیں جو حادثے کے وقت سب سے پہلے پہنچتے ہیں اور آخری سانس تک وہاں موجود رہتے ہیں۔
اصل مسئلہ تقریبات کا نہ ہونا یا نہ ہونا نہیں، اصل دکھ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خدمت کا معیار فوٹوگرافی اور میڈیا کوریج سے ماپا جانے لگا ہے۔ خدمت کی وہ تپش ان لوگوں کے لہجے اور پیشانیوں پر لکھی ہوتی ہے جو رات کی تاریکی میں ایمبولینس سے پہلے جائے حادثہ پر پہنچتے ہیں، دہکتے ہوئے کمروں میں زخمیوں کو بچانے کے لیے اپنے ہاتھ زخمی کر لیتے ہیں، بے سہارا بچوں تک کھانا پہنچاتے ہیں، وباؤں کے دوران اپنے گھروں سے دور رہتے ہیں، اور دوسروں کی جان بچانا اپنا انسانی فرض سمجھتے ہیں۔ یہی اصل ہیرو ہیں، مگر افسوس کہ ان کے نام اکثر کسی رپورٹ میں نظر ہی نہیں آتے۔ وہ کیمرے میں اس لیے نظر نہیں آتے کہ اُن کے ہاتھ مصروف ہوتے ہیں۔ اُن کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ سوٹ پہن کر اسٹیج پر بیٹھیں۔ وہ تو موٹے تسمے والی ٹوپی پہنے، گلے میں شناختی کارڈ لٹکائے، بیگ اُٹھائے میدان میں گھومتے رہتے ہیں۔ ان کی خدمات کی قدردانی تو دور کی بات، اُن کا نام تک عوام کو معلوم نہیں ہوتا۔ جب جب ملک کسی آزمائش سے گزرا زلزلوں سے لے کر سیلابوں تک، سڑک حادثات سے وباؤں تک ایک ہی طبقہ سب سے آگے نظر آیا رضاکار۔ یہ نہیں کہ ان کے پاس دردِ دل کے سوا کوئی دوسرا وسیلہ ہوتا ہے، کئی اپنے جیبوں سے خرچ کرتے ہیں، کئی روزگار پر اثر برداشت کرتے ہیں تاکہ کسی کی مدد ہو جائے۔ متعدد رضاکار اپنی جانیں تک قربان کر دیتے ہیں، مگر ان کی قربانی پر صرف ایک اخباری لائن لکھی جاتی ہے۔
ہمارے معاشرے کا اصل حسن وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک ’’انسان‘‘ سب سے مقدم ہے، چاہے وہ کسی بھی رنگ، نسل یا مذہب سے ہو۔ جو زخمی کو دیکھ کر گزر نہیں جاتے، جو سیلاب زدہ کو دیکھ کر اپنی پلیٹ کا آدھا حصہ بانٹ دیتے ہیں، جو نصف رات کو خون کی ضرورت پڑے تو پورا نیٹ ورک جگا دیتے ہیں۔ اصل رضاکاری، اصل انسانیت ہے اور یہ انسانیت ہمارے معاشرے کے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے۔ خوش آئند ہے کہ کچھ ادارے ایسے ہی بے نام لوگوں کی عزت افزائی کے لیے آگے آئے ہیں، جو بنا کسی مبالغے، بنا کسی مالی خواہش اور بنا کسی اسٹیج کے انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔ یہ ادارے یہ پیغام دیتے ہیں کہ عزت ہمیشہ اسٹیج پر بیٹھنے والوں کو نہیں ملتی، اصل عزت ان لوگوں کو ملنی چاہیے جو دل سے محنت کرکے انسانوں کو بچاتے ہیں، نہ کہ ان کو جو کیمرے کی روشنی میں انسان جمع کرتے ہیں۔
ہمیں ہر سال 5 دسمبر کو صرف تقریب نہیں کرنی، بلکہ سوچ کا زاویہ بدلنا ہے، ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ خدمت کا معیار کون طے کرے گا؟ اسٹیج پر بیٹھنے والے یا سڑکوں پر بھاگنے والے؟
میڈیا کوریج لینے والے یا رات کی سردی میں کپڑے بانٹنے والے؟حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کے ہر فرد، ہر شہری اور ہر نوجوان کو اس سوچ سے نکلنا ہوگا کہ ’’خدمت‘‘ کوئی بڑا ایوارڈ لینے کا نام ہے۔ خدمت ایک اندرونی آواز ہے، ایمان کا حصہ ہے، ایک روحانی طاقت ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے. عالمی یومِ رضاکار ہمیں یاد دلاتا ہے کہ معاشرے کی مضبوط بنیادیں بڑے منصوبے یا بڑے ادارے نہیں ہوتے، بلکہ وہ ہاتھ ہوتے ہیں جو بنا تکرار، بنا مطالبے اور بنا امتیاز کے کسی کی مدد کو بڑھتے ہیں۔ ملک ان ہاتھوں سے چلتا ہے، نہ اُن سے جو خدمت کو نمائش بنا دیتے ہیں۔ آج، جب ہم یہ دن مناتے ہیں، تو دل سے اعتراف کریں، یہ ملک اُن رضاکاروں کا مقروض ہے۔ یہ بے آواز، بے نام مگر بے مثال لوگ ہی ہمارا اصل فخر ہیں۔ سلام اُن تمام لوگوں کو جو خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں، سکون کو قربانی سے جوڑتے ہیں، اور انسانیت کو خود سے اوپر رکھتے ہیں۔
0 تبصرے