جمعیت علمائے اسلام کا شیر — شہید ڈاکٹر خالد محمود سومروؒ: ایک بلند پایہ شخصیت پر جامع نظر

تحریر: حمید اللہ سیال

جمعیت علمائے اسلام کا شیر — شہید ڈاکٹر خالد محمود سومروؒ: ایک بلند پایہ شخصیت پر جامع نظر

سندھ کی نامور دینی و سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام کی قیادت کے عظیم سرخیل، شہید ڈاکٹر خالد محمود سومروؒ کی شہادت نے سندھ کی مذہبی، سماجی اور سیاسی فضا میں ایک ایسا خلا چھوڑا جو آج تک پُر نہیں ہو سکا۔ مگر اس خلا کے بعد جو شخصیت غیر معمولی جرأت کے ساتھ سامنے آئی، وہ اُن کے فرزند علامہ راشد خالد محمود سومرو ہیں۔ یوں محسوس ہوا جیسے والد کی شہادت نے انہیں بے مثال حوصلہ، جرأت اور فکری پختگی عطا کر دی ہو۔ شہادت کے اس دور میں خوف، دباؤ اور مایوسی کا ماحول تھا۔ بہت سے لوگ خاموش ہوگئے تھے، مگر علامہ راشد سومرو نے اپنے والد کے مشن کو نہ چھوڑا۔ وہ نہ صرف میدان میں اُترے بلکہ ایسی جرأت اور اعتماد کے ساتھ قیادت کی کہ سندھ کی سیاسی فضا میں نئی حرارت پیدا ہو گئی۔ ان کی تقریروں میں شہید والد کی للکار نظر آتی ہے لیکن ساتھ ہی حکمت، بردباری اور جدید سیاسی شعور بھی جھلکتا ہے۔ شہید ڈاکٹر خالد محمود سومروؒ کا مشن صرف تقریروں کا نام نہیں تھا بلکہ ایک منظم تحریک، فکری جدوجہد، عوامی شعور اور دینی بصیرت کا مجموعہ تھا۔ علامہ راشد سومرو نے اس ورثے کو صرف سنبھالا نہیں بلکہ اسے نئے نظم، نئے جوش اور نئی حکمت کے ساتھ آگے بڑھایا اور ہر طرح کی دھمکیوں کے باوجود میدان میں ڈٹے رہے۔ ظلم کے خلاف للکار — وراثت کا زندہ عنوان ڈاکٹر خالد محمود سومروؒ کی زندگی کی سب سے نمایاں خوبی ظلم کے خلاف بے خوف للکار تھی۔ علامہ راشد سومرو بھی آج اسی بے باکی کے ساتھ ناانصافی، ہاریوں کی حق تلفی، سندھ کے وسائل کی لوٹ، مذہبی و سیاسی جبر اور معاشرتی ناہمواری کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سندھ کے نوجوانوں، مزدوروں اور دینی کارکنوں کے دلوں میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ شہید والد کی خوشبو… اولاد کی شخصیت میں زندہ جہاں کہیں علامہ راشد سومرو گفتگو کرتے ہیں، شہید والد کی غیرت، ان کی زبان کا رس، اور ان کے مشن کی جھلک نمایاں محسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنی زندگی سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ شہیدِ اسلام ڈاکٹر خالد محمود سومروؒ کا مشن صرف ایک فرد تک محدود نہ تھا بلکہ ایک ایسی تحریک تھا جس کا وارث آج بھی ثابت قدمی کے ساتھ اسے آگے بڑھا رہا ہے۔ مشن کے دو جرأت مند وارث — علامہ راشد اور علامہ ناصر سومرو شہید ڈاکٹر خالد محمود سومروؒ کے دونوں فرزند، علامہ راشد خالد محمود سومرو اور علامہ ناصر خالد محمود سومرو, شہید والد کے فکری ورثے کے سچے امین ہیں۔ 29 نومبر 2014ء کا سانحہ سندھ کے لیے ناقابلِ بھرپائی صدمہ تھا۔ مگر جس عظمت سے دونوں فرزندان نے اس مشن کو آگے بڑھایا، وہ سندھ کی سیاسی تاریخ میں ایک مثال بن چکا ہے۔ خوف کے دور میں جرأت کا چراغ شہادت کے بعد سندھ پر خوف طاری تھا، لوگ خاموش تھے، مگر انہی دنوں ایک نوجوان عالم نے جرأت کے ساتھ میدان سنبھالا۔ علامہ راشد سومرو نے نہ صرف قیادت کی بلکہ خوف کو عزم میں بدل کر شہید والد کے مشن کو نیا سفر دیا۔ ان کی تقاریر میں للکار بھی ہے، سیاسی بصیرت بھی، اور حالا ت سے نہ ڈرنے والی وہ ہمت جو شہید والد کا خاصہ تھی۔ شہید کے فکر کو نیا نظم اور نئی جہت علامہ راشد سومرو نے جماعتی اتحاد کو مضبوط کیا، مرکزی قیادت سے رابطے کو مربوط کیا، سندھ کے مسائل پر واضح اور بے خوف مؤقف سامنے رکھا، اور سیاسی و تنظیمی حکمتِ عملی کو جدید ڈھانچے میں ترتیب دیا۔ یوں شہید کا فکری سفر نئی توانائی اور نئے نظم کے ساتھ آگے بڑھا۔ ظلم کے خلاف آواز — سومروں کا امتیازی نشان ڈاکٹر خالد محمود سومروؒ ظالم کے سامنے سچ بولنے والے شخص تھے۔ ان کی جدوجہد ہاریوں، غریبوں، مزدوروں، دینی اداروں اور سندھ کے وسائل کے تحفظ کے لیے تھی۔ آج یہی جرأت علامہ راشد اور علامہ ناصر سومرو کے لہجے میں نظر آتی ہے۔ وہ کسی دباؤ، طاقت یا مفاد کے سامنے نہیں جھکتے۔ اسی لیے سندھ کے ہزاروں نوجوان انہیں صرف رہنما نہیں بلکہ سچائی کا علمبردار سمجھتے ہیں۔ شہید والد کی خوشبو… اولاد کی للکار علامہ راشد سومرو کی تقریریں، ان کی بے باکی اور مؤقف کی سچائی بتاتی ہے کہ شہید والد کا فکری رنگ آج بھی ان کی اولاد کے ذریعے زندہ ہے۔ علامہ ناصر سومرو کے نرم مگر مؤثر لہجے میں بھی شہید والد کا روحانی رنگ جھلکتا ہے۔ یہ دونوں بھائی شہید والد کے زندہ، چلتے پھرتے، بولتے اور للکارنے والے نشانات ہیں۔ رت سے لکھا مشن — وقت اسے مٹا نہیں سکتا سومرو خاندان کی قیادت نے ثابت کیا ہے کہ شہادت سے لکھے گئے مشن زمانے کی گرد میں گم نہیں ہوتے۔ یہ نسل در نسل چلتے، بڑھتے اور آخرکار منزل تک پہنچتے ہیں۔ شہید والد کا فکری ورثہ آج ان کے بیٹوں کے ذریعے نئے عزم اور نئی تاریخ کے ساتھ روشن ہے۔ عوام کے درمیان رہنے والا عوامی قائد ڈاکٹر خالد محمود سومروؒ کی سیاست خالص عوامی سیاست تھی۔ انہوں نے اپنی یونین کونسل، اپنے محلے—ددوائی روڈ، ایوب کالونی، صدیقی کالونی، کوثر مل محلہ، حیدری محلہ، عارباڻي محلہ—سب کو کبھی نہیں بھلایا۔ سینیٹر بننے کے باوجود اپنے لوگوں سے جڑے رہے اور ان کی خدمت کو اپنی سیاست کا مرکز بنایا۔