کرپشن کا عفریت اور شہباز حکومت...!!!

تحریر: نعیم اختر

کرپشن کا عفریت اور  شہباز حکومت...!!!

پاکستان کی معیشت اس وقت ایسے خطرناک موڑ پر کھڑی ہے جہاں معمولی لغزش بھی ریاست کو گہرے معاشی و سیاسی گڑھے میں دھکیل سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کی تازہ رپورٹ نے اسی خطرے کی گھنٹی بجائی ہےاور یوں بجائی ہے کہ پوری قوم چونک اٹھی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن نا صرف "مسلسل اور تباہ کن" صورت حال اختیار کر چکی ہے بلکہ موجودہ حکومت کے دور میں اس کا دائرہ وسعت پکڑ چکا ہے۔ تین ماہ قبل جاری ہونے والی اس رپورٹ کو عوام سے پوشیدہ رکھنا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ معاملات کہیں نہ کہیں گڑبڑ ہیں۔یہ امر حیران کن ہے کہ حکومت نے اس رپورٹ کو تین ماہ تک دبائے رکھا، شفافیت کا دعویٰ کرنے والی حکومت نے وہی کچھ کیا جس کا الزام وہ اپنے سیاسی مخالفین پر لگاتی ہے۔ اگر رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار اتنے "خطرناک" نا ہوتے تو شاید یہ رپورٹ بھی دیگر رپورٹوں کی طرح پریس کانفرنسوں میں پھلجھڑیاں چھوڑنے کے لیے استعمال کی جاتی۔ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ دو سال میں نیب کی تین مختلف کارروائیوں کے نتیجے میں 5.3 کھرب روپے کی ریکوری کرپشن کی اصل لاگت کا صرف ایک حصہ ہے۔ سوچیےاگر ریکوری کھربوں میں ہے تو اصل نقصان کس قدر کربناک ہوگا؟ کرپشن صرف باقاعدہ لوٹ مار کا نام نہیں یہ ہر اس فیصلے کا نام ہے جس سے قومی مفاد کو پس پشت ڈال کر شخصی مفاد کو ترجیح دی جائے۔ رپورٹ کے سب سے تشویشناک حصے میں کہا گیا کہ پاکستان میں پالیسی سازی بااثر طبقات کے قبضے میں ہے۔ 2019 کا شوگر ایکسپورٹ اسکینڈل اس کی واضح مثال ہے اس میں سیاسی و کاروباری اشرافیہ نے حکومتی پالیسی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔ آج پھر وہی صورت حال ہے پالیسیاں چند خاندانوں کے گرد گھوم رہی ہیں اور قیمت عوام ادا کر رہی ہے آئی ایم ایف رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں کرپشن، ادارہ جاتی کمزوری اور مفادات کا ٹکراؤ پہلے سے کہیں بڑھ گیا ہے۔ یہ صرف آئی ایم ایف کا موقف نہیں ملکی اداروں، شفافیت کے عالمی انڈیکس، اور عوامی رائے عامہ سب ایک ہی نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کرپشن شہباز حکومت میں نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ شہباز حکومت کی اصل ناکامی معیشت نہیں بلکہ اعتماد کا کھو جانا ہے۔جب عوام کو ہی یقین نہ ہو کہ ان کے ٹیکس کا پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے تو پھر کوئی معاشی پروگرام دنیا کا بہترین بھی کیوں نا ہو نتیجہ صفر ہی نکلتا ہے۔ 1958 سے اب تک پاکستان نے آئی ایم ایف سے 24 پروگرام لیے۔ موجودہ حکومت نے 25واں پروگرام شروع کیا۔ سوال یہ ہےکیا ہر حکومت صرف آئی ایم ایف کی دستخط شدہ رپورٹ کو اپنی معاشی کامیابی سمجھتی رہے گی کیا ہم ہمیشہ قرضوں سے معیشت چلا کر قوم کو مزید غلام بناتے رہیں گے؟ شہباز حکومت نے اگرچہ بعض معاشی اقدامات تیزی سے کیے مگر اصلاحات اور احتساب کا عمل مکمل طور پر مفلوج نظر آتا ہے۔ جب تک مضبوط عدالتی اصلاحات، ٹیکس نظام کی شفافیت، پبلک پروکیورمنٹ کی بہتری اور ادارہ جاتی احتساب نہیں ہوگا ملک مسلسل قرضوں کے بوجھ تلے دبا رہے گا۔ عوامی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ کرپشن عدلیہ،پولیس سرکاری خریداری کے عمل (Public Procurement) میں پائی جاتی ہے۔ یہ وہ شعبے ہیں جو ریاست کے ستون سمجھے جاتے ہیں۔ جب ستون ہی کمزور ہوں تو عمارت کب تک کھڑی رہ سکتی ہے آئی ایم ایف نے واضح کر دیا ہے کہ بغیر شفافیت، احتساب اور عدالتی اصلاحات کے پاکستان کی معاشی بحالی ممکن نہیں۔ اور شہباز حکومت اب تک اصلاحات سے زیادہ سیاسی بچاؤ پر توجہ دیتی نظر آتی ہے۔ اگر موجودہ حکومت نے یہی روش جاری رکھی تو اگلی رپورٹ میں شاید الفاظ مزید سخت ہوں اور انجام مزید بھاری۔پاکستان ایک ایسے مقام پر آ کھڑا ہوا ہے جہاں سچ چھپانا خود سب سے بڑا جھوٹ بن چکا ہے۔ ملکی قیادت خصوصاً موجودہ حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ کرپشن صرف سیاسی نعرہ نہیں رہی یہ اب قومی سلامتی کا مسئلہ بن چکی ہے۔ قرض لینا مسئلہ نہیں ان قرضوں کو ایمانداری سے استعمال کرنا اصل امتحان ہےجو بدقسمتی سے ہم 75 برس سے پاس نہیں کر پائے۔