انسانی تاریخ میں کئی شہر اور بستیوں کے آثار ملے ہیں جو ماضی کی تہذیبی ترقی اور انسانی دانش کا ثبوت ہیں۔ گونور ڈیپی (Gonur Depe) اور موہنجو داڑو (Mohenjo Daro) ان میں دو نہایت اہم اور قدیم آثارِ قدیمہ کے مقامات ہیں۔ گونور ڈیپی وسطی ایشیا میں واقع ہے جبکہ موہنجو داڑو برصغیر کی وادیِ سندھ کی شاندار تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ دونوں شہروں نے شہری منصوبہ بندی، فنِ تعمیر اور سماجی ڈھانچے میں اعلیٰ مقام حاصل کیا۔
گونور ڈیپی، قدیم مرگیانا تہذیب کا مرکز
گونور ڈیپی موجودہ ترکمانستان کے جنوبی علاقے ماری اویسس میں واقع ہے۔ یہ شہر قدیم مرگیانا (Margiana) تہذیب کا اہم مرکز سمجھا جاتا ہے اور اس کا دور عام طور پر ۲۳۰۰ قبل مسیح سے ۱۷۰۰ قبل مسیح تک مانا جاتا ہے۔
گونور ڈیپی کو سب سے پہلے سوویت ماہر آثارِ قدیمہ وکٹر ساریانیدی نے 1972ء کے بعد منظم انداز سے کھودا۔
یہاں سے محلات، مندر، رہائشی علاقے، قبریں اور آبپاشی کے پیچیدہ نظام دریافت ہوئے۔
محلاتی حصے میں بلند فصیلیں، بڑے صحن، اناج کے گودام اور مذہبی رسومات کے لئے مخصوص عمارتیں ملی ہیں۔
قبروں سے سونے، چاندی، قیمتی پتھروں کے زیورات، مٹی کے برتن اور مذہبی اشیاء برآمد ہوئیں۔
محققین کا خیال ہے کہ یہاں آتش کدے یا مذہبی مراکز موجود تھے جن کے شواہد بعد کی مذہبی روایات سے مماثل نظر آتے ہیں۔
ماہريں کے مطابق سندھ کا جغرافیائی دائرہ گونور ڈیپی تک پھیلا ہوا تھا؛ تاریخی شواہد اور محققین کی رائے کے مطابق قدیم سندھ (وادیِ سندھ) کی حدود اور ثقافتی/تجارتی روابط بعض اوقات گونور ڈیپی تک پہنچتے تھے۔ یعنی مرگیانا تہذیب کے تجارتی اور ثقافتی تعلقات وادیِ سندھ تک پھیلے ہوئے تھے، اور اس معروضی ربط کی وجہ سے بعض تاریخی بیانیوں میں علاقوں کے دائرۂ اثر کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔
موہنجو داڑو، وادیِ سندھ کی شاندار تہذیب
موہنجو داڑو دنیا کے قدیم شہری مراکز میں شمار ہوتا ہے۔ یہ موجودہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے اور ۲۶۰۰ قبل مسیح سے ۱۹۰۰ قبل مسیح تک وادیِ سندھ کی تہذیب کا نمایاں شہر رہا۔
- موہنجو داڑو کو پہلی مرتبہ 1922ء میں آر۔ڈی۔ بینرجی اور دیگر ماہرین نے دریافت کیا۔
- شہر کی منصوبہ بندی نہایت عمدہ تھی: کشادہ سڑکیں، پکی اینٹوں کے گھر، جدید نکاسیٔ آب، 'گریٹ باتھ' یعنی عوامی حمام اور اناج کے بڑے گودام ملے۔
یہاں سے مہریں، مجسمے، مٹی کے برتن، دھات کے زیورات اور روزمرہ استعمال کی اشیاء ملیں جو فنی مہارت اور تجارتی روابط ظاہر کرتی ہیں۔
وادیِ سندھ کے لوگ خطے میں ترقی یافتہ زرعی نظام، صنعت اور تجارت کے حامل تھے۔
موہنجو داڑو کی تہذیب آج بھی محققین کے لیے پراسرار ہے کیونکہ یہاں ملنے والی انڈس اسکرپٹ ابھی تک مکمل طور پر پڑھی یا سمجھائی نہیں گئی ہے۔
مماثلتیں
1. شہری منصوبہ بندی: دونوں میں منظم گلیاں، رہائشی تقسیم اور بڑے عوامی/مذہبی ڈھانچے ملتے ہیں۔
2. آبپاشی و پانی کا نظام: گونور ڈیپی میں نالے اور آبپاشی کے آثار، موہنجو داڑو میں جدید نکاسیٔ آب کا نظام ملتا ہے۔
3. تجارت و روابط: دونوں تہذیبوں کے تجارتی اور ثقافتی رشتے دیگر علاقوں مثلاً ایران، میسوپوٹیمیا اور ایک دوسرے کے ساتھ موجود تھے؛ خاص طور پر اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ وادیِ سندھ کے اثاثے اور گونور ڈیپی کے رابطے تاریخی طور پر واضح تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
4. مذہبی مراکز: گونور ڈیپی میں آتش کدے اور مذہبی عمارات کے آثار، جبکہ موہنجو داڑو میں عظیم حمام اور ممکنہ مذہبی رسومات کے آثار ملے۔
فرق (خلاصہ جدول)
پہلو؛ گونور ڈیپی، موہنجو داڑو
جغرافیہ: موجودہ ترکمانستان (ماری اویسس)، موجودہ پاکستان (سندھ)
دور: ۲۳۰۰–۱۷۰۰ ق.م ،...۲۶۰۰–۱۹۰۰ ق.م
اہمیت: مذہبی و ریاستی مرکز، شہری، تجارتی و شہری انتظامی مرکز
تحریر: واضح تحریری یادگاریں نہیں ملیں، انڈس اسکرپٹ موجود مگر مکمل طور پر سمجھ میں نہیں آئی
دریافت: 1970ء کی دہائی .... 1920ء کی دہائی
موجودہ حیثیت
گونور ڈیپی کو یونیسکو عالمی ورثہ میں شامل کرنے کی تجاویز اور تحفظاتی کوششیں ہیں؛ ترکمانستان میں اسے محافظتی اہمیت حاصل ہے اور محققین و سیاح اسے دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔
موہنجو داڑو یونیسکو عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل ہے، مگر اس کے تحفظ اور مرمت کے لیے مستقل اور منظم اقدامات کی ضرورت برقرار ہے۔
نتیجہ
گونور ڈیپی اور موہنجو داڑو دونوں قدیم تہذیبوں کے اہم ثبوت ہیں۔ دونوں نے اپنی جگہ علم، فن اور سماجی تنظیم میں نمایاں ترقی دکھائی۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ سندھ کے تاریخی حدود اور ثقافتی/تجارتی روابط کئی ادوار میں گونور ڈیپی تک پہنچتے رہے، جس کی بنیاد پر دونوں تہذیبوں کے درمیان تبادلے اور میل جول کا تصور زیادہ مناسب ہے۔
0 تبصرے