کراچی ایئرپورٹ کا ہولناک واقعہ – جب ایک غیر ملکی وفد نشانے پر آیا

پاکستان کی تاریخ میں 1970ء کا ایک دن ایسا بھی آیا جس نے ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔

کراچی ایئرپورٹ کا ہولناک واقعہ – جب ایک غیر ملکی وفد نشانے پر آیا

پاکستان کی تاریخ میں 1970ء کا ایک دن ایسا بھی آیا جس نے ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔
یکم نومبر 1970ء کو پولینڈ کے صدر مارشل ماریان اسپائچالسکی خیرسگالی دورے پر کراچی پہنچے۔ ان کے استقبال کے لیے شاندار انتظامات کیے گئے تھے۔ گورنر سندھ، اعلیٰ فوجی حکام، پولش سفارتکار، صحافی اور فوٹوگرافر بڑی تعداد میں ایئرپورٹ پر موجود تھے۔
جیسے ہی طیارہ رن وے پر اترا، ایک پی آئی اے کی کیٹرنگ وین اچانک اس مقام پر داخل ہوئی جہاں اس کی موجودگی کی اجازت نہیں تھی۔ ڈرائیور محمد فیروز عبداللہ، جو پی آئی اے کا ہی ملازم تھا، گاڑی کو انتہائی تیز رفتاری سے پروٹوکول لائن کی طرف لے گیا۔
چند لمحوں میں ہی فضا ماتم میں بدل گئی۔ وین کی ٹکر سے چار افراد جاں بحق ہوگئے:
1. زیگفریڈ وولنیک – پولینڈ کے نائب وزیر خارجہ
2. چودھری محمد نذیر – پاکستان انٹیلیجنس بیورو کے ڈپٹی ڈائریکٹر
3. سرکاری فوٹوگرافر اشرف بیگ
4. سرکاری فوٹوگرافر محمد یاسین
اس حادثے میں کئی لوگ زخمی ہوئے جن میں پولینڈ کا سفیر بھی شامل تھا۔ خوش قسمتی سے صدر اسپائچالسکی محفوظ رہے۔
گرفتاری کے بعد ڈرائیور نے بیان دیا کہ وہ کمیونزم کا سخت مخالف ہے اور اس نے "اسلام کے نام پر" یہ کارروائی کی۔
صدر جنرل یحییٰ خان نے فوراً اپنا غیر ملکی دورہ مختصر کیا اور عدالتی تحقیقات کا حکم دیا۔ ایئرپورٹ سیکیورٹی کے ذمہ دار افسران کو معطل کر دیا گیا۔ بعد ازاں ایک فوجی عدالت نے ڈرائیور کو قتل عمد کا مجرم قرار دے کر 10 مئی 1971ء کو سزائے موت سنائی۔
یہ سانحہ نہ صرف پاکستان اور پولینڈ کے تعلقات پر منفی اثر ڈال گیا بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کے سیکیورٹی نظام پر سوالات اٹھے۔ اس کے بعد وی آئی پی سیکیورٹی اور پروٹوکول کے طریقہ کار میں نمایاں تبدیلیاں کی گئیں۔