ڈاکٹر شاہنواز کنبہار قتل کیس عدالت نے ڈی آئی جی سمیت چار پولیس اہلکاروں کو اشتہاری مجرم قرار دے دیا

ڈاکٹر شاہنواز کنبہار قتل کیس عدالت نے ڈی آئی جی سمیت چار پولیس اہلکاروں کو اشتہاری مجرم قرار دے دیا

سندھ کے شہر میرپورخاص میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹر شاہنواز کنبہار کے پولیس تحویل میں ہلاکت کے مقدمے میں ڈی آئی جی جاوید جسکانی، انسپیکٹر عبدالستار سموں سمیت چار پولیس اہلکاروں کو اشتہاری مجرم قرار دیا ہے۔ ایف آئی اے کی جانب سے بتایا گیا کہ ان کی ٹیمیں ملزمان کی گرفتاریوں کے لیے متعلقہ رہائشی پتوں پر چھاپے مار چکی ہیں لیکن انہیں کامیابی نہیں مل سکی۔ عدالت نے اپنے تحریری حکمنامے میں کہا ہے کہ ایس ایس پی چوہدری اسد پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور اسلام آباد کے رہائشی ہیں متعلقہ علاقوں کے ایس ایس پیز عدالت کو مطمئن نہیں کر پائے کہ انھوں نے گرفتاری کے لیے کیا کارروائی کی ہے۔ ایڈووکیٹ ابراہیم کنبہار کا کہنا ہے کہ اگلی سماعت پر متعلقہ ایس ایس پی اپنی رپورٹ پیش کریں گے جس کے بعد ان کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ عدالت نے مزید سماعت 29 اگست تک ملتوی کردی۔ خیال رہے کہ عمرکوٹ سول ہسپتال کے ڈاکٹر شاہنواز کنبہار پر ستمبر 2024 میں توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا جس کے بعد کراچی سے ان کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ اس کے بعد پولیس نے ایک مقابلے کے دوران ان کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا جبکہ تدفین کے وقت مشتعل افراد نے ورثا سے لاش چھین کر اسے آگ لگا دی تھی۔ سندھ میں سول سوسائٹی کے احتجاج کے بعد حکومت سندھ نے پولیس کی ایک اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی رپورٹ ٹیم تشکیل دی جس نے 27 ستمبر کو انکشاف کیا کہ ڈاکٹر شاہنواز کو حراست میں لے کر جعلی مقابلے میں ہلاک کیا گیا ہے جس کے بعد ڈی آئی جی میرپورخاص، ایس ایس پی میرپورخاص اور ایس ایس پی عمرکوٹ کو معطل کر دیا گیا تاہم ملزمان کی عدم گرفتاری پر ورثا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا تھا۔ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد ڈاکٹر شاہنواز کو مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے والے پولیس اہلکاروں سمیت دیگر 45 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔ ڈاکٹر شاہنواز کے کزن ایڈووکیٹ ابراہیم کنبہار کی جانب سے ڈی آئی جی جاوید جسکانی، ایس ایس پی میرپور خاص کیپٹن اسد چوہدری، ایس ایس پی عمرکوٹ، ایس ایچ او سندھڑی نیاز کھوسو، سی آئی اے انچارج اور مقامی مذہبی رہنما پیر عمر جان سرہندی سمیت 45 افراد کے خلاف سندھڑی تھانے میں مقدمہ درج کروایا گیا۔ مقدمے میں قتل، انسداد دہشت گردی اور ہنگامہ آرائی کی دفعات شامل کی گئیں۔ پولیس افسران سمیت دیگر افراد کے خلاف درج مقدمے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر شاہنواز کے جسم پر تشدد کے واضح نشانات موجود تھے۔ مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر شاہنواز تحصیل ہسپتال عمرکوٹ میں 18ویں گریڈ میں ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے وہ ذہنی دباؤ کا شکار تھے جس کا علاج جاری تھا۔ درج مقدمے کے مطابق 17 ستمبر کو مذہبی گروہوں کے پر تشدد احتجاج کے بعد ڈاکٹر شاہنواز پر توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا، جس کے بعد وہ عمرکوٹ سے چلے گئے اسی روز انھوں نے اپنی اصلی فیس بک آئی ڈی سے تردیدی بیان بھی جاری کیا۔ مقدمے میں پیر عمر جان سرہندی کے خلاف الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے ایک مشتعل احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے نہ صرف ڈاکٹر شاہنواز کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا بلکہ لوگوں کے مذہبی جذبات بھی بھڑکائے۔