کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا، اپنے قومی بیانیے کو عالمی افق پر فروغ دینا ہوگا، سابق سفیر غلام رسول بلوچ
کراچی: "یومِ استحصالِ کشمیر" کے موقع پر پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔ سیمینار کے مہمانِ خصوصی سابق پاکستانی سفیر جناب غلام رسول بلوچ تھے۔ انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کی جنگ ان کی شناخت کی جنگ ہے، ہندوستان ان کی شناخت کو مٹانا چاہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے، یہ بات ہم قومی اور بین الاقوامی دونوں سطح پر کہتے ہیں، اس پر اقوام متحدہ کی قرارداد بھی موجود ہے، یہ ایک قانونی مسئلہ بھی ہے، سلامتی کونسل کی 1948 کی قرارداد کے بعد کشمیریوں کے جائز حقوق کا مسئلہ بھی بن چکا ہے، اس مسئلے کو ہندوستان ہی اقوام متحدہ میں لے کر گیا جو ہمارے حق میں چلا گیا۔
غلام رسول بلوچ نے کہا کہ ہندوستان نے اس مسئلے کو بغاوت اور شورش کا رنگ دیا کہ یہ ایک شورش ہے جسے پاکستان دہشتگردی کے ذریعے بڑھاوا دیتا ہے اور اب بھارتیہ جنتہ پارٹی نے اس کو ایک خطرناک زاویہ دینے کی کوشش کی کہ مسئلہ کشمیر، اسلامی یا مسلم دہشتگردی ہے۔
ان کہا کہنا تھا کہ ہندوستان کے اس بیانیے کا تدارک کرنا ہمارا چیلنج ہے، ہم کشمیر میں انسانی حقوق، کشمیریوں کے جائز حقوق اور ان کی آزادی کے بنیادی حقوق پر زور دیتے ہیں۔ ہندوستان بار بار لڑائی کرکے بحیثیت قوم پاکستانیوں کی جستجو دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم کشمیر کیلئے کتنے عہد بستہ ہیں۔ ہندوستان نے ہم پر فیٹف کی پابندیاں لگوائیں، سفارتی سطح پر بدنام کیا لیکن جب یہ دونوں حربے ناکام ہوگئے تو اس نے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کردیا کہ لیکن اللہ کا کرم ہے کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں تو وہ ہمارا پانی بند کرنے سے باز رہا۔
انہوں نے کہا کہ معرکہ حق میں ہم نے ثابت کیا کہ ہم نا صرف ایٹمی طاقت رکھتے ہیں بلکہ ہمارے روایتی ہتھیار بھی بہت قابلِ بھروسہ ہیں اور دنیا نے اس کو تسلیم کیا۔ پاکستان دنیا میں ایک نئی حیثیت کے ساتھ ابھرا، امریکا سمیت دیگر ممالک ہمیں اس لیے سپورٹ کررہے ہیں کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا کہ یہ وہ پاکستان نہیں جسے ہندوستان اتنے برسوں سے پروجیکٹ کررہا تھا کہ پاکستان میں کچھ نہیں رہا، تنہا ہوگیا، دیوالیہ ہوگیا بلکہ ہندوستان نے یہاں تک بھی کہا کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے، ہم نے ان تمام مفروضوں کو غلط ثابت کیا۔
غلام رسول بلوچ نے کہا کہ اللہ نے ہمیں عسکری محاذ پر فتحیاب کیا اسی طرح سے سفارتی سطح پر بھی پاکستان کو کامیاب کیا، دنیا کے تمام بڑے ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات برابری کی بنیاد پر ہے، ہم کسی کے ماتحت نہیں، عزت کرتے ہیں اور عزت پاتے ہیں، یہی ہماری سفارتکاری کا سنگ بنیاد ہے، اندرونی مسائل کی وجہ سے اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں لیکن ہم نے کبھی اپنے بنیادی اور رہنما اصول نہیں چھوڑے۔ ہماری سفارتی ٹیم دنیا کے صفِ اول کے سفارتکاروں میں شمار کی جاتی ہے، اس کی مثال ایسے ملتی ہے کہ جب ہم اقوام متحدہ میں ہوتے ہیں تو ہمارے مستقل مندوب کی بات کو اہمیت دی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تین محاذوں پر فتح حاصل کی ہے، عسکری، سفارتی اور میڈیا۔ عسکری مقابلوں میں زیادہ تر تنازعات غلط اندازوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ یہاں پر قیادت کی فیصلہ سازی اور تدبر کا امتحان ہوتا ہے، ہمارے پاس دو آپشنز تھے۔ جب ہمیں معلوم ہوگیا کہ ہندوستان نے ہماری اہم تنصیبات کو نشانے پر لیا ہوا ہے تو ہم اسے نیوٹرلائز کرتے لیکن اس طرح کشیدگی مزید بڑھتی سو ہم نے ایسا نہیں کیا۔ یہ تدبر ہے، یہ بہت مضبوط گرفت والا لائحہ عمل ہے جسے دنیا بھر میں پذیرائی ملی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے ابھی جو چیلنج ہے وہ اپنے بیانیے کو برقرار رکھنا، اسے فروغ دینا ہے۔ اس کیلئے ہمارا واضح موقف ہے کہ ہمیں اصولی جنگ لڑنی ہے، کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا، مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں ہمارا بنیادی قانونی فریم ورک ہیں جس کے تحت ہمیں کام کرنا ہے۔ بے شک کہ یہ دو طرفہ ہی کیوں نا ہو، ہم کسی بھی دوطرفہ حل سے پیچھے نہیں ہٹتے کیونکہ جب جنگ ہونی ہوتی ہے تو دو فریقین نے ہی آپس میں طے کرنا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں مسئلہ کشمیر پر اپنے اقدامات کو اسلامی انتہاپسندی سے ہٹا کے دنیا کا دھیان کشمیریوں کے جائز حقوق، اقوام متحدہ کی قرارداد اور کشمیریوں کو ان کے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کی جانب لانا ہوگا، اس سب کیلئے ہمیں آج کل کے ٹولز کو استعمال کرنا ہے جس میں ڈیجیٹل سفارتکاری اور سوشل میڈیا شامل ہے، آپ نے اپنی آواز کو واضح کرنا ہے جس میں نجی میڈیا بھی آتا ہے مگر بطور محکمہ اطلاعات آپ راہ متعین کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں یہ کوشش بھی کرنی چاہیے کہ اگر کوئی کشمیری لوگ ہیں تو انہیں بھی اپنی آواز میں شامل کریں، کشمیریوں کی موثر آواز بننے کیلئے ہمیں کشمیریوں کا پیغام بھی آگے پہنچانا ہوگا۔ دنیا کے انسانی حقوق کے نیٹ ورکس کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی پی آر پی آئی ڈی کراچی محترمہ اِرم تنویر صاحبہ نے کہا کہ آج کی جنگ صرف اسلحہ اور ہتھیاروں کی نہیں بلکہ بیانیے کی بھی ہے اور اس کے لیے ریاست کے تمام ستونوں کو مل جل کر کام کرنا چاہیے۔ حال ہی میں ہم نے ہندوستان کے ساتھ جنگ میں اس کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم قومی و بین الاقوامی سطح پر اس بحران سے نہایت عزت اور وقار کے ساتھ سرخرو ہوکر نکلے، قومی سطح پر ہماری جو بھی اندرونی تقسیم ہے دنیا کے ہر ملک میں ہوتی ہے، ہندوستان میں بھی کئی اندرونی مسائل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس جنگ میں جو کارنامہ کر دکھایا وہ نہایت ذمہ دارانہ تھا۔ ہندوستان نے حملہ کیا اور جنگ کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی لیکن ہم نے سمجھداری کا مظاہرہ کیا، پاکستان نے برابر کا جوابی ردعمل دیا، شاید ہندوستان اس کیلئے تیار نہیں تھا۔ بین الاقوامی میڈیا میں ہمارا تاثر بہت اچھا گیا، عالمی میڈیا نے پاکستان کے موقف کی تائید کی، وفاقی وزیر اطلاعات پورے پورے دن دفتر میں موجود تھے اور تمام بین الاقوامی میڈیا کو انگیج کیا ہوا تھا۔
محترمہ اِرم تنویر صاحبہ نے مزید کہا کہ یومِ استحصالِ کشمیر ضرور منانا چاہیے لیکن اس کو ہمارے قومی بیانیے کا مستقل حصہ ہونا چاہیے، مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے، امریکا کا ہماری طرف مثبت جھکاؤ ہے، ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی جسے ہندوستان مسترد کرچکا ہے، پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے کہ امریکی صدر اس مسئلے پر کھل کر اظہارِ خیال کررہے ہیں۔
0 تبصرے