کاروباری برادری کی خدشات پر ایف بی آر نوٹیفکیشنز جاری ہوئے، امان پراچہ

وزیر اعظم ، فیلڈ مارشل کے خدشات کو سنجیدگی سے سنا اور اقدامات کیے،نائب صدرایف پی سی سی آئی

کاروباری برادری کی خدشات پر ایف بی آر نوٹیفکیشنز جاری ہوئے، امان پراچہ

کراچی: ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر امان پراچہ نے سیلز ٹیکس نظام کے تحت رجسٹرڈ افراد کی گرفتاری سے قبل ٹیکس فراڈ کی شکایات کی ابتدائی جانچ اور ازالے کی کمیٹیوں قائم کردہ کمیٹیوں کے حوالے سے کہا کہ ایف پی سی سی آئی کے عہدیداران نے وفاقی حکومت سے وفاقی بجٹ برائے2025-2026میں ایف بی آر افسران کودیئے گئے صوابدیدی اختیارات اور بزنس کمیونٹی کی گر فتاری پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا، جس پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کی جانب سے جاری کئے گئے نئے نوٹیفکیشنز جاری کئے گئے ہیں ،ان نوٹیفکیشنز کے بعد کمپنیوں کے سی ای اوز اور ڈائریکٹرز کو محض شبے کی بنیاد پر گرفتار نہیں کیا جا سکے گا بلکہ جوکمیٹیاں قائم کی گئی ہیں وہ پہلے شکایت کا جائزہ لیں گی، اور کمیٹی کی سفارشات کے بعد ہی کوئی کارروائی کی جاسکے گی،ان کمیٹیوں کے ذریعہ تمام معاملات کو شفاف طریقے طے کئے جائیں تاکہ کمیٹیوں پر بزنس کمیونٹی کا اعتماد رہے۔امان پراچہ نے کہا کہ ملک بھر کی کاروباری برادری نے وفاقی بجٹ میں شامل کئی کاروبار مخالف شقوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اپنے یہ خدشات وزیر اعظم شہباز شریف، فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور دیگر اہم وفاقی وزرا تک پہنچائے تھے تاکہ انہیں بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کی مشاورت سے حل کیا جاسکے۔ امان پراچہ نے واضح کیا کہ سیلز ٹیکس ایکٹ کی شق 37A کے تحت ایف بی آر کے پاس پہلے محض شک کی بنیاد پر سی ای اوز اور ڈائریکٹرز کو گرفتار کرنے کے اختیارات تھے، لیکن اب کامیاب مہم کے نتیجے میں اس شق میں ترمیم کر دی گئی ہے۔ شکایات کا باعث بننے والی شق 40B میں بھی شکایات کمیٹیوں کے دائرہ اختیار میں آئے گی، جو شکایت کا جائزہ لے کر آئندہ اقدامات کی سفارش کریں گی۔انہوںنے وزیر اعظم شہباز شریف، فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور دیگر وفاقی رہنماو ¿ں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان کے خدشات کو سنجیدگی سے سنا اور اقدامات کیے۔امان پراچہ نے کہا کہ ہمیں ہردم ملکی مفاد عزیز ہے اور ہماری خواہش ہے کہ ملکی ٹیکس دہندگان کی تعداد اور حکومت کا ریونیو بڑھے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوسکے گا جب کاروباری برادری کو ہراساں کرنا بند کیا جائے گااورنئے ٹیکس دہندگان پیدا کرنے کے بجائے پرانے ٹیکس دہندگان پر ٹیکسز کا بوجھ ڈالا جائے گا،لوگوں کو چاہیئے کہ وہ ٹیکس نیٹ میں آئیں گے اور اپنے حصے کا ٹیکس جمع کرائیں۔