بھارت کی ناکام سازشیں اور ریاست کا بھرپور جواب

تحریر : سید مجتبی رضوان

بھارت کی ناکام سازشیں اور ریاست کا بھرپور جواب

پاکستانی عوام ہمیشہ اپنے وطن کی سلامتی اور خود مختاری کے معاملے میں پاک فوج اور حکومت کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ حالیہ حالات میں جب بھارت کی طرف سے ایک مرتبہ پھر سرحدی جارحیت اور بے بنیاد الزامات کا سلسلہ شروع کیا گیا، تو پاکستانی عوام نے اپنے قائدین کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلہ کن اقدامات نے عوام میں ایک نیا جوش اور عزم پیدا کیا ہے، اور وہ جانتے ہیں کہ ان کے رہنما اور فوج ملک کی عزت و وقار کی حفاظت کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی قیادت میں فوج نے ہمیشہ پاکستانی سرحدوں کا دفاع کیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف اول پر رہ کر دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، مگر اس کی خود مختاری اور عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کسی بھی قسم کی مہم جوئی کا بھرپور جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ فوج کا قومی مفادات کے تحفظ کے لیے عزم اور قربانی کی داستانیں پاکستانی عوام کے دلوں میں نقش ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستانی قوم اپنے اداروں اور قیادت پر مکمل اعتماد کرتی ہے۔ اسی طرح، حکومت کی جانب سے کیے گئے تمام اقدامات، جیسے بھارت کے ساتھ تجارت کی معطلی، فضائی حدود کی بندش اور بھارتی شہریوں کے لیے ویزا سکیم کی معطلی، نے عوام میں ایک مضبوط پیغام بھیجا ہے کہ حکومت اپنے فیصلوں میں سنجیدہ ہے اور قوم کی سلامتی کے حوالے سے کسی بھی قسم کی غفلت یا کمزوری کو برداشت نہیں کرے گی۔ عوام کا یہ اعتماد حکومت کے لیے ایک طاقتور محرک ہے جو اس کے عزم اور حکمت عملی کو مزید تقویت فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستانی عوام کی جانب سے ان اقدامات کی بھرپور حمایت بھی ایک واضح اشارہ ہے کہ ملک کے ہر شہری کا دل پاک فوج اور حکومت کے ساتھ دھڑک رہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اقدامات نہ صرف بھارت کی دھمکیوں کا مؤثر جواب ہیں، بلکہ پاکستان کے دفاع میں ایک مضبوط اور متحد موقف کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ یہ قوم اپنے اداروں کے ساتھ کھڑی ہے اور ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان کا پیغام واضح ہے کہ وہ امن کا خواہاں ہے مگر اپنے حقوق اور خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ بھارت کے غیر سنجیدہ اقدامات کا پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کوئی کردار نہیں، اور پاکستان اپنے قومی مفادات کی حفاظت کے لیے تمام اقدامات اٹھانے کا عزم رکھتا ہے۔ پاکستان نے بھارت کو اپنی تاریخی اور جرات مندانہ پوزیشن کے ساتھ واضح پیغام دیا ہے کہ اس کی آبی جارحیت کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اہم اجلاس میں حکومت، عسکری قیادت اور تمام سٹیک ہولڈرز نے بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے سخت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، جو پوری قوم کی آواز کی عکاسی کرتے ہیں۔ پاکستان میں پانی کی فراہمی ایک اہم قومی مفاد ہے، اور قومی سلامتی کمیٹی نے متفقہ طور پر اعلان کیا ہے کہ بھارت کی طرف سے پانی روکنے یا موڑنے کی کسی بھی کوشش کو اعلان جنگ سمجھا جائے گا۔ پاکستان کا جواب لفظی گولہ باری نہیں، بلکہ عملی اقدامات پر مبنی ہوگا جو اس کے عزم اور فیصلہ کن حکمت عملی کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان نے بھارت کی فالس فلیگ آپریشنز اور بے بنیاد الزامات کے جواب میں جو قدم اٹھایا ہے، وہ صرف بھارتی جارحیت کا مؤثر جواب نہیں بلکہ ایک نیا سفارتی موقف بھی ہے۔ اس فیصلے کے مطابق، پاکستان نے واہگہ بارڈر بند کر دیا ہے اور 30 اپریل تک بھارت سے آنے والی تمام کراس بارڈر ٹرانزٹ کو بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اسی طرح، پاکستان نے بھارت کے ساتھ تمام تجارتی تعلقات بھی معطل کر دیے ہیں اور بھارت کے راستے افغانستان کی تجارت بھی منسوخ کر دی ہے۔ ان اقدامات سے بھارتی معیشت پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان نے بھارتی ایئر لائنز کے لیے اپنی فضائی حدود بھی بند کر دی ہیں اور بھارتی دفاعی اتاشیوں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دیتے ہوئے انہیں 30 اپریل تک ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔ مزید برآں، پاکستان نے بھارتی شہریوں کے لیے سارک ویز سکیم کو معطل کر دیا ہے اور انہیں 48 گھنٹوں میں پاکستان چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے، سواۓ سکھ برادری کے جنہیں اس حکم سے استثنیٰ حاصل ہے۔ پاکستان کے اس مؤثر اور مربوط جواب نے عالمی سطح پر اس کے موقف کو مستحکم کیا ہے اور بھارتی دھمکیوں کا کرارا جواب دیا ہے۔ پاکستان کا یہ قدم نہ صرف عسکری قیادت کی حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اس کی سفارتی کامیاب حکمت عملی کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ پاکستان کے تمام فیصلے ایک ساتھ اس عزم کا مظہر ہیں کہ وہ اپنے خود مختاری، سلامتی اور عزت پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی سے طے پایا تھا، اور یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو دریائے سندھ، چناب اور جہلم کے پانی کا حق دیا گیا تھا، جبکہ بھارت کو راوی، ستلج اور بیاس دریاوں کے پانی کا حق حاصل تھا۔ لیکن حالیہ برسوں میں بھارت کی جانب سے اس معاہدے کی خلاف ورزی اور اس میں تبدیلی کے مطالبات کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ بھارت نے متعدد بار پاکستان کے دریاؤں پر پن بجلی منصوبے تعمیر کرکے سندھ طاس معاہدے کی شقوں کی خلاف ورزی کی ہے، جس سے پاکستان کے آبی وسائل متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت نے انڈس واٹر کمشنرز کے اجلاس کی بھی مسلسل مخالفت کی ہے، اور گزشتہ تین سالوں سے دونوں ممالک کے کمشنرز کا اجلاس نہیں ہو سکا۔ پاکستان کی جانب سے متعدد بار بھارتی کمشنر کو اجلاس بلانے کے لیے خطوط لکھے گئے، لیکن بھارت کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔ ایسی صورتحال میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ ختم کر سکتا ہے؟ وزارت آبی وسائل کے ذرائع کے مطابق، سندھ طاس معاہدہ ایک دو طرفہ عالمی معاہدہ ہے جسے دونوں ممالک کی رضامندی کے بغیر یکطرفہ طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی سطح پر اس معاہدے کی اہمیت ہے، اور اس کی خلاف ورزی یا یکطرفہ طور پر ختم کرنے کی کوشش عالمی سطح پر سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ معاہدہ کی روح کے مطابق دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی رضامندی سے کسی بھی تبدیلی یا معطل کرنے کا اختیار حاصل ہے، نہ کہ ایک ملک کو یکطرفہ طور پر معاہدہ ختم کرنے کا حق۔ عالمی بینک کی ثالثی کے تحت اس معاہدے کو ایک مضبوط قانونی تحفظ حاصل ہے، جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان آبی وسائل کے تنازعات کو حل کرنا اور ہر فریق کو اپنے حصے کا پانی فراہم کرنا ہے۔ اگر بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے لیے کئی سنگین نتائج ہو سکتے ہیں، جو اس کے مفاد میں نہیں ہوں گے عالمی سطح پر سندھ طاس معاہدہ ایک مضبوط قانونی دستاویز کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ بھارت اگر یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو عالمی برادری کی جانب سے سخت ردعمل آ سکتا ہے، کیونکہ اس معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان پانی کے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنا ہے۔ بھارت پر عالمی دباؤ بڑھ سکتا ہے جس سے اس کی ساکھ متاثر ہو گی۔ سندھ طاس معاہدہ کی پاسداری نہ صرف پانی کی فراہمی کے حوالے سے ضروری ہے بلکہ اس کا براہ راست اثر دونوں ممالک کی زرعی معیشت پر بھی پڑتا ہے۔ بھارت کے لیے اپنے دریاؤں کے پانی کی مفت فراہمی کو روکنا نہ صرف پاکستان کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے بلکہ بھارت کے کسانوں کو بھی اس کے نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں، کیونکہ یہ دریا بھارت کے اہم زرعی علاقوں کی آبی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ اگر بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ ختم کرتا ہے تو اس کا اثر اس کے دوسرے ہمسایہ ممالک جیسے سری لنکا، نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات پر بھی پڑ سکتا ہے۔ بھارت کی آبی پالیسیاں عالمی سطح پر تنقید کا شکار ہو سکتی ہیں، اور اس کے ہمسایہ ممالک بھارت کے رویے کو شک کی نظر سے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ جب بھارت دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم اور دریائے جہلم پر کشن گنگا ڈیم بنا رہا تھا، اس وقت عالمی بینک کی خاموشی ایک سوالیہ نشان بن چکی تھی۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی بلاشبہ بھارتی جارحیت اور انتہا پسندی کی علامت ہے، مگر یہ بات بھی واضح ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو معطل یا منسوخ نہیں کر سکتا۔ سندھ طاس معاہدہ ایک عالمی سطح پر ضمانت یافتہ معاہدہ ہے، جس میں یکطرفہ معطلی یا منسوخی کی کوئی گنجائش نہیں۔ معاہدے کے آرٹیکل 12(4) کے مطابق، یہ معاہدہ صرف اس صورت میں ختم کیا جا سکتا ہے جب پاکستان اور بھارت دونوں تحریری طور پر اس پر راضی ہوں۔ بھارت اگر یکطرفہ طور پر معاہدہ معطل یا منسوخ کرتا ہے، تو یہ نہ صرف پاکستان کے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنے کا اقدام ہوگا، بلکہ عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔ اگر بھارت پاکستانی دریاوں کے پانی کو روکنے کی کوشش کرتا ہے، تو یہ ایک نئی اور خطرناک مثال بنے گا جسے عالمی قانون میں بطور کیس استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے چین جیسے ممالک کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے، جو دریائے براہما پترا کے پانی کو روکنے کے لیے بھارت کے طرزِ عمل کو بنیاد بنا سکتے ہیں۔