فیم کنسورشیم کے دوسرے روز مشکل حالات میں پاکستانی خواتین کا کردار قابل تحسین ہے، مقررین کا خطاب

فیم کنسورشیم کے دوسرے روز مشکل حالات میں پاکستانی خواتین کا کردار قابل تحسین ہے، مقررین کا خطاب

فیم کنسورشیم کے دوسرے روز مشکل حالات میں پاکستانی خواتین کا کردار قابل تحسین ہے، مقررین کا خطاب

کراچی: پاکستان میں خواتین کے حقوق کی 12 تنظیموں اور پانچ الائنسز کے اتحاد "فیم کنسورشیم" کی دو روزہ سالانہ کانفرنس کے آخری روز مقررین نے پاکستانی معاشرے میں خواتین کے انمول کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ متعدد چیلنجز اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باوجود خواتین اپنے خاندانوں کی کفالت جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ اپنے خاندان کی پرورش میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ عظمیٰ لطیف نے اپنا اہم تحقیقی مقالہ پیش کرتے ہوئے خواتین پر موسمیاتی تبدیلی کے خصوصی اثرات پر روشنی ڈالی۔ چونکا دینے والے اعدادوشمار کا انکشاف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ میں 77 فیصد خواتین اور 34 فیصد مرد، پنجاب میں 70 فیصد خواتین اور 30 فیصد مرد موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس بات پربھی زور دیا کہ خواتین کو موسمیاتی تبدیلیوں سے منسلک چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نگہداشت کی ذمہ داریوں میں اضافے کی وجہ سے، جو کہ آب و ہوا کی وجہ سے غیر متوقع اور عدم تحفظ کی وجہ سے بڑھ جاتی ہیں۔ سندھ کے ٹھٹھہ اور میرپورخاص اضلاع پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، عظمیٰ لطیف نے اس بات پر زور دیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے گھر کے اندر خواتین کی دیکھ بھال کے کام میں اضافہ کیا ہے، جس سے ان کی ذہنی صحت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ انہوں نے روشنی ڈالی کہ 2022 کے سیلاب اور COVID-19 کی وبا جیسے واقعات نے خوراک کی قلت پیدا کی ہے، جس کی وجہ سے سندھ میں کم وزن والی خواتین کا تناسب سب سے زیادہ ہے، جن میں حاملہ اور غیر حاملہ خواتین بھی شامل ہیں۔ ہیلپ ایج انٹرنیشنل کی موسمیاتی تبدیلی کی مشیر جویریہ افضل نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والی خواتین پر توجہ مرکوز کریں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین۔ ٹرسٹ فار کنزرویشن آف کوسٹل ریسورسز کی مہر نوشیروانی نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین، جو بنیادی طور پر گھروں میں خوراک، ایندھن اور پانی کے انتظام کی ذمہ دار ہیں، مردوں کے مقابلے موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ ’’ہوم بیس وومن ورکرز‘‘ کے موضوع پر ایک سیشن میں روبینہ جمیل نے کہا کہ گھریلو خواتین کے لیے اجرت کمانے کے بہت مواقع ہیں لیکن گھریلو کام کی وجہ سے انہیں کم مواقع ملتے ہیں اور جو وقت وہ گھر پر گزارتی ہیں، وہ کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبوں میں کام کرنے والی خواتین کو معاوضے کی بجائے زرعی اجناس مل جاتی ہیں جو کہ اجرت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ خواتین حقوق کی سرگرم رہنما نزہت شیریں نے موجودہ قانون سازی کی خامیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ خاص طور پر گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے لیے کوئی مضبوط قانون نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں کوئی تحفظ نہیں مل سکا ہے۔ ان چیلنجز کے باوجود بہت سی خواتین ہیں جو ملک کی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہی ہیں۔ مشہور ڈرامہ نگار بی گل نے میڈیا میں خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ڈراموں کے ذریعے عورتوں کے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ جوکہ انکی نظر میں ایک خال تھا جہاں پر عورتوں کے مسائل اجاگر نہیں ہورہے تھے۔ کانفرنس کے آخری اور اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے معروف سیاستدان مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ پاکستان کے 76 سال بعد بھی ہم خواتین کے مسائل پر بات کر رہے ہیں، کیا ہم ہم ایسا پاکستان چاہتے تھے جو آج یہاں مرد عورتیں دونوں اکٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں نوجوان نسل کی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ معاشرے کو بدل سکتی ہیں۔ کانفرنس کے اختتام پر شیما کرمانی نے خواتین کے کردار اور ذمہ داریوں پر اپنا روایتی رقص پیش کیا۔