بلاک بسٹر فلمیں، تنہائی اور ذہنی صحت: گرو دت کی زندگی کے وہ پہلو جن سے بہت سے لوگ ناواقف ہیں

بلاک بسٹر فلمیں، تنہائی اور ذہنی صحت: گرو دت کی زندگی کے وہ پہلو جن سے بہت سے لوگ ناواقف ہیں

مشہور بھارتی ہدایتکار اور اداکار گرو دت جب 1964ء میں انتقال کر گئے تو ان کی عمر صرف 39 برس تھی، لیکن ہندی سینما پر انہوں نے جو گہری چھاپ چھوڑی وہ آج بھی ان کی پہچان کا ایک اہم حوالہ ہے۔ وہ 9 جولائی 1925ء کو بھارتی ریاست کرناٹک میں پیدا ہوئے۔ آج ان کی پیدائش کا صد سالہ جشن منایا جا رہا ہے، لیکن کیمرے کے پیچھے موجود اس شخص کی ذہنی بے چینی اور اس کے خلاف ان کی مسلسل جدوجہد کے کئی پہلو آج بھی ایسے ہیں جن سے بہت سے لوگ ناواقف ہیں۔ ”پیاسا“ اور ”کاغذ کے پھول“ جیسی کلاسیکی فلموں کے تخلیق کار گرو دت نے اپنے کام اور منفرد انداز کی بدولت فلم سازی میں ایک الگ مقام حاصل کیا۔ ان کے دکھ بھرے کردار اکثر ان کی ذاتی جدوجہد کا عکس ہوتے تھے۔ ان کی کہانیوں میں بلندیوں کو چھونے کی طاقت تھی اور ان کی بنائی گئی فلموں کے ذریعے زندگی کی تلخ حقیقتوں کو سمجھنے اور قبول کرنے میں مدد ملتی تھی۔ گرو دت کا آغاز نہایت عاجزانہ تھا۔ ان کا بچپن مالی مشکلات میں گزرا۔ ان کا خاندان روزگار کی تلاش میں مشرقی ہندوستان کے بنگال منتقل ہو گیا جہاں نوجوان گرو دت مقامی ثقافت سے گہرے طور پر متاثر ہوا۔ 1940ء کی دہائی میں جب وہ بمبئی (موجودہ ممبئی) کی فلم انڈسٹری میں داخل ہوئے تو انہوں نے اپنا خاندانی نام پاڈوکون چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنے فلمی سفر کا آغاز کوریوگرافر کے طور پر کیا اور ضرورت پوری کرنے کے لیے ٹیلیفون آپریٹر کی نوکری بھی کی۔ اس وقت جب بھارت میں آزادی کی تحریک عروج پر تھی، ملکی حالات نے ایک فنکار کی سوچ اور اس کے کام پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ اسی دوران انہوں نے ”کش مکش“ کے نام سے ایک کہانی لکھی جو سماجی مایوسی پر مبنی تھی اور بعد میں یہی کہانی بڑی اسکرین پر ”پیاسا“ کی صورت میں پیش کی گئی۔ گرو دت کی دیو آنند سے دوستی ہوئی، جو خود بھی جلد مشہور اداکار بن گئے۔ دیو آنند نے گرو دت کو 1951ء میں اپنی فلم ”بازی“ کی ہدایتکاری کا موقع دیا، جو دونوں کے کیریئر کے لیے بڑی کامیابی ثابت ہوئی۔ گرو دت نے مشہور گلوکارہ گیتا رائے سے محبت کی۔ ان کے قریبی دوست کہتے ہیں کہ زندگی کے وہ ابتدائی سال ان کے لیے سب سے زیادہ خوشگوار تھے۔ انہوں نے اپنی فلم کمپنی قائم کی اور ”آر پار“، ”مسٹر اینڈ مسز 55“ جیسی رومانوی مزاحیہ فلموں کے ذریعے کامیابی حاصل کی، جن میں وہ خود بھی نمایاں کردار میں نظر آئے۔ لیکن اپنے فن کی گہرائیوں کو سمجھتے ہوئے انہوں نے ایک سنجیدہ اور فیصلہ کن فلم ”پیاسا“ بنائی۔ ”پیاسا“ سرمایہ دارانہ دنیا میں ایک فنکار کی جدوجہد کا عکس تھی، جو وقت کی آزمائش پر پوری اتری اور ”ٹائم میگزین“ کی 20ویں صدی کی 100 عظیم ترین فلموں کی فہرست میں شامل ہونے والی واحد ہندی فلم بنی۔ 1956ء میں جب ان کا ”ڈریم پروجیکٹ“ تکمیل کے قریب تھا تو صرف 31 سال کی عمر میں گرو دت نے پہلی بار خودکشی کی کوشش کی۔ ان کی بہن للیتا لاجمی کے مطابق ”ہمیں جب خبر ملی کہ گرو دت نے خودکشی کی کوشش کی ہے تو ہم فوراً پالی ہل پہنچے۔ میں جانتی تھی کہ وہ ذہنی مسائل کا شکار ہے، وہ اکثر فون پر کہتا تھا کہ ہمیں بات کرنی چاہیے، مگر جب میں وہاں پہنچتی تو وہ اس بارے میں کچھ نہ کہتا۔“ لاجمی کے مطابق اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد خاندان نے پیشہ ورانہ مدد نہیں لی۔ اس وقت ذہنی صحت پر بات کرنا معاشرتی طور پر معیوب سمجھا جاتا تھا اور اوپر سے ”پیاسا“ میں بڑی سرمایہ کاری ہو چکی تھی، اس لیے خاندان نے اس کی اندرونی تکلیفوں کے ساتھ جینے کی کوشش کی۔ 1957ء میں ریلیز ہونے والی ”پیاسا“ نے گرو دت کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، لیکن وہ اپنی کامیابی کے باوجود اندر سے تنہائی کا شکار رہا۔ ان کے سینماٹوگرافر وی کے مورتی نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ”وہ کہتا تھا کہ میں چاہتا تھا کہ ایک اچھا ہدایتکار بنوں، اچھی فلمیں بناؤں، وہ سب کچھ میں نے حاصل کر لیا، پیسہ بھی ہے، لیکن پھر بھی میرے پاس کچھ نہیں۔“ چینل فور کی دستاویزی فلم ”In Search of Guru Dutt“ میں ان کی ساتھی اداکارہ وحیدہ رحمان یاد کرتی ہیں کہ ”وہ کہتا تھا کہ زندگی میں صرف دو چیزیں ہیں: کامیابی اور ناکامی، درمیان میں کچھ نہیں۔“ مگر ”پیاسا“ کی کامیابی کے بعد گرو دت اپنے ہی قائم کیے ہوئے اصول کو بھول گیا اور سیدھا اپنی ذاتی اور مہنگی فلم ”کاغذ کے پھول“ بنانے میں جُت گیا۔ یہ فلم ایک ایسے فلمساز کی کہانی ہے جس میں ناخوشگوار شادی اور اپنی تخلیقی الہام (میوز) کے ساتھ پیچیدہ تعلقات کو دکھایا گیا ہے۔ فلم ایک غیر معمولی انداز میں اس وقت ختم ہوتی ہے جب فلمساز شدید تنہائی اور ناکام رشتوں کے ساتھ سمجھوتہ نہ کر سکنے کی وجہ سے برباد ہو جاتا ہے۔ حالانکہ آج اسے ایک کلاسک فلم تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن اس وقت یہ تجارتی لحاظ سے ناکام رہی اور کہا جاتا ہے کہ گرو دت اس دھچکے سے کبھی نہیں سنبھل سکا۔ ”کاغذ کے پھول“ کے بعد گرو دت نے کبھی کوئی فلم ڈائریکٹ نہیں کی۔ وقت کے ساتھ ان کی فلم کمپنی دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی اور ”چودھویں کا چاند“ کے ساتھ بطور فلمساز شاندار واپسی کی، جو ان کے کیریئر کی سب سے بڑی تجارتی کامیابی ثابت ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے ”صاحب بیوی اور غلام“ پر کام شروع کیا، جس کی ہدایتکاری ان کے قریبی ساتھی اسکرین رائٹر ابرار علوی نے کی۔ لاجمی کے مطابق اس وقت تک ان کی ذاتی زندگی سخت انتشار کا شکار تھی اور ان کے مزاج میں اتار چڑھاؤ معمول بن چکے تھے۔ مصنف بمل مترہ یاد کرتے ہیں کہ گرو دت نے انہیں اپنی نیند کی کمی اور نیند کی گولیوں کے بھروسے کے بارے میں بتایا تھا۔ اس وقت تک ان کی شادی ٹوٹ چکی تھی اور ذہنی حالت بھی بہت خراب ہو چکی تھی۔ مترہ کو گرو دت کی وہ باتیں یاد ہیں جب وہ بار بار کہتے تھے: ”مجھے لگتا ہے میں پاگل ہو جاؤں گا۔“ ایک رات گرو دت نے دوبارہ خودکشی کی کوشش کی اور تین دن تک بے ہوش رہے۔ لاجمی بتاتی ہیں کہ اس واقعے کے بعد ڈاکٹر کے مشورے پر خاندان نے ایک ماہرِ نفسیات سے رابطہ کیا، لیکن گرو دت دوبارہ وہاں جانے پر آمادہ نہیں ہوا۔ لاجمی افسوس کا اظہار کرتی ہیں کہ ”ہم نے دوبارہ کبھی ماہرِ نفسیات کو نہیں بلایا۔“ کئی برسوں تک وہ یہ سوچتی رہیں کہ شاید ان کا بھائی خاموشی سے مدد کے لیے پکار رہا تھا، شاید وہ ایسی تاریکی میں پھنسا ہوا تھا جہاں نہ کوئی اس کا درد دیکھ سکا اور نہ وہ خود اس سے نکل سکا۔ چند دن بعد جب گرو دت اسپتال سے ڈسچارج ہوا تو ”صاحب بیوی اور غلام“ کی شوٹنگ دوبارہ ایسے شروع ہوئی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ جب بمل مترہ نے اس واقعے کے بارے میں گرو دت سے پوچھا تو انہوں نے کہا: ”آج کل میں اکثر سوچتا ہوں کہ وہ کیسی بے چینی تھی، کیسی بے قراری تھی جس نے مجھے خودکشی پر آمادہ کیا؟ جب میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو ڈر سے کانپ جاتا ہوں، لیکن اس دن نیند کی گولیاں لینے میں مجھے کوئی جھجک محسوس نہیں ہوئی۔“ یہ فلم کامیاب ہوئی اور 1963ء کے برلن فلم فیسٹیول میں بھارت کی نمائندگی کی اور نیشنل ایوارڈ بھی جیتا۔