بابا کی روح مسکرا رہی ہو گی..!!

فوزيه سنديلو

بابا کی روح مسکرا رہی ہو گی..!!

میرا بابا کچے راستے پر چلتے ہوئے بیل گاڑی کے پہیوں کی چرچراہٹ فضا میں مسلسل ایک لرزش پیدا کر رہی تھی۔ راستے کی دھڑکن سنائی دے رہی تھی۔ لکڑی کی اُس گاڑی پر رکھے پلّال کے اوپر بچھائی گئی چادر پر ایک بچہ سویا ہوا تھا جس کے بچنے کی امید بہت کم تھی۔ اُس وقت ایک ماں کے دل میں سینکڑوں تمنائیں پل رہی تھیں اور باپ بھی مایوسی سے بھری خالی نظروں سے اُس معصوم کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ تب اچانک ایک بابا مست فقیر بیل گاڑی کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا: "گھر لے جاؤ، کچھ نہیں ہوگا، ٹھیک ہو جائے گا۔" اُس مست کے الفاظ اور ہاتھ کے اشارے نے ناامید باپ کے دل میں امید جگا دی، جو اپنے بیمار بیٹے کو حکیم کو دکھانے لے جا رہا تھا۔ وہ معصوم بیمار بچہ میرا بابا قربان علی تھا، جس کی بیماری اور اُس مست فقیر کے اشارے کے بارے میں یہ ساری بات مجھے میری بڑی پھوپھی ارباب نے بتائی تھی۔ جب بھی پھوپھی بابا کا ذکر کرتی ہیں تو اُس مست کے کئے گئے ہاتھ کے اشارے کا ذکر ضرور کرتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ مست کوئی عام انسان نہیں بلکہ کوئی زندگی بخشنے والا فرشتہ تھا، جو مایوس باپ اور دکھی ماں کو تسلی اور یقین دینے آیا تھا کہ اس بچے کو کچھ نہیں ہوگا۔ واقعی میرا بابا کچھ ہی دنوں میں بالکل صحت مند ہو گیا۔ جب بھی اپنے اُس فرشتہ صفت بابا پر لکھنے کا سوچتی ہوں تو ایک اذیت ناک درد اپنے پر پھیلائے ذہن پر سوار ہو جاتا ہے۔ لکھنے کا خیال دل سے نکال دیتی ہوں۔ اُن جنت جیسے دنوں کو یاد کر کے دل تڑپ اٹھتا ہے۔ وہ خوابوں جیسے خوبصورت لمحات یوں ہی اڑ کر چلے گئے جیسے بابا کی روح مسکراتے ہوئے جسم سے نکل کر آسمان کی وسعتوں میں سما گئی۔ وہ وقت کتنا مختصر، خوبصورت اور پُرسکون تھا جب گھر کے کشادہ آنگن میں گلابوں کو پانی دیتے ہوئے بابا کی ہنسی کی گونج سنائی دیتی تھی۔ سردیوں کی ٹھنڈی صبحوں میں جب مٹی کے بنے چولہے میں جلتی آگ پر ہاتھ سینکتے ہوئے بابا ریڈیو پر چلتے ہوئے لتا کے گیت سنتے اور چائے پیتے تھے۔ اپنے باغ کے کنارے کرسی پر بیٹھ کر اخبار پڑھتا یا کوئی کتاب۔ برسات کے موسم میں جب بادل گرجتے برستے تھے تو بابا کے لیے پلاؤ یا کبھی مچھلی اور چاول بنا کر لے جاتی تھی تو وہ لمحے کتنے ہی دلکش اور یادگار ہوتے تھے۔ بابا خوشی خوشی کھانے لگتا تھا۔ وہ وقت کتنا قیمتی تھا، کتنا خوبصورت تھا۔ بابا ایک نہایت حساس اور معصوم دل رکھنے والا انسان تھا، جس نے اپنی ساری زندگی ایک ایسے چھوٹے سے گاؤں میں گزاری، جس کے کچے گھر اور اُن گھروں کے آنگن بڑے بڑے درختوں سے ڈھکے ہوئے ہوتے تھے۔ گاؤں کے اردگرد ہری بھری کھیت اور ان کھیتوں میں زیتون کے باغ اُس کے حسن میں اور بھی اضافہ کر دیتے تھے۔ ایک طرف دادو کینال بہتا تھا جہاں دوسری طرف جانے کے لیے کشتی استعمال کی جاتی تھی۔ اُس کینال کے کنارے پر بھی لمبے اور گھنے نیم کے درخت ہوتے تھے۔ اُن درختوں کے دلکش سائے تلے، سامنے بہتے دادو کینال کے پانی کی مدھر موسیقی سنتے ہوئے بابا بیٹھ کر کتاب پڑھا کرتا تھا۔ گھر کے شور والے ماحول سے نکل کر کینال کے پُرسکون ماحول میں بیٹھ کر پڑھنے کا ایک الگ ہی رومانس تھا، جہاں نیم کے گهنے درختوں پر بیٹھے پرندوں کی میٹھی چہچہاہٹ سن کر بابا فطرت کی محبت میں کھو جایا کرتے تھے۔ فطرت سے ایسی ہی محبت کی طاقت کے باعث بابا نے کھیتوں کے بیچ میں دو کچے کمرے تعمیر کروائے، جن کے اطراف ایک بڑی اونچی مٹی کی دیوار بنوائی گئی تھی۔ اُس گھر کا آنگن کشادہ تھا، جہاں بابا نے طرح طرح کے پھول، پودے اور درخت لگائے تھے۔ آنگن کے کچھ حصے کو چھوڑ کر باقی اگلے حصے میں دوب گھاس کے ساتھ لیموں کے درخت، گل مہر، آم، فاروہ، انار اور دوسری طرف بید کے درخت لگائے گئے تھے۔ درمیان میں خوبصورت سفید رابیل اور سرخ گلاب کے پھول کھلے ہوئے هوتے تھے۔ ایسی زرخیز مٹی تھی کہ جو کچھ بھی بویا جاتا، چند ہی دنوں میں خوبصورت پودے زمین چیر کر باہر نکل آتے اور جھومنے لگتے۔ اسی سرسبز دوب گھاس پے بابا اپنے دوست چاچا بچل کے ساتھ بیٹھ کر باتيں کرتا تھا یا کبھی تنہائی میں بیٹھ کر کتاب پڑھا کرتا تھا۔ کتابوں کے لیے کمروں کی دیواروں میں خانے بنے ہوئے تھے، جن میں دنیا کے عالمی ادب سے لے کر سندھی زبان کے بھی بے شمار کتابیں رکھی تھیں۔ ان کھلے خانوں میں رکھی کچھ کتابوں پر مکڑیوں کے نازک جالے بنے ہوتے تھے۔ میں اُن کتابوں کو ہاتھ لگا کر سوچتی تھی کہ جب بڑی ہوں گی تو بابا کی طرح وہ کتابیں پڑھوں گی۔ میرے دادا حاجی ٺارل اور دادی بلقيس بیگم کے بڑے بیٹے ہونے کی وجہ سے بابا سبھی گھر والوں کی محبتوں کا مرکز تھا۔ چاچا اور پھوپھیاں بھی اس سے بے حد محبت کرتی تھیں۔ بابا نے بھی ایک ذمہ دار بیٹے کی طرح آخر تک ہر ذمہ داری نبھائی۔ میرے دادا، جنہیں ہم "بابا حاجی" کہا کرتے تھے، نماز روزے کے پابند تھے اور اس کے ساتھ ساتھ اُنہیں بھینس پالنے کا بہت شوق تھا۔ بھینسوں کے لیے وہ دادو کینال کے دوسری طرف گھاس کاٹنے جایا کرتے تھے اور لمبی لمبی گھاس کی گٹھڑی اکیلے سر پر رکھ کر کشتی کے ذریعے واپس آتے تھے۔ اُن کی بھینسیں پورے گاؤں میں مشہور تھیں۔ گھر میں اپنی بھینسوں کا دودھ ہوتا تھا۔ میری دادی اور امی صبح سویرے پرندوں کی چہچہاہٹ کے ساتھ اٹھتیں، دودھ بلوتیں اور ناشتہ تیار کرتیں۔ مشترکہ بڑا خاندان ایک ہی چھت کے نیچے کتنی محبت اور اپنائیت سے ساتھ رہتا تھا۔ جب بابا کے دوست، سائیں رضوان اور چاچا مشتاق گاد آتے تھے تو گاؤں کے بیچ میں بنی ہماری اوطاق کے آنگن میں شام کے وقت بیری کے درختوں کے سامنے چارپائیاں بچھائی جاتی تھیں۔ امی اور دادی کھانے کی تیاری کر کے بھیجتی تھیں، جس میں گھر میں پالی ہوئی مرغیوں کا سالن بھی ہوتا تھا۔ انہی دنوں کی ایک تکلیف دہ جھلک آندھی کی طرح ذہن میں گھوم جاتی ہے۔ میرا ننھا بھائی جواد بیمار ہو گیا تھا، جسے لاڑکانہ کے ایک اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا، جہاں ایک کمرہ ہمارے حوالے تھا۔ اُس کمرے میں امی، بابا اور میں بھی اُن کے ساتھ رہتی تھی اور بابا کے ساتھ چاچا بچل بھی ہوتا تھا، جو بابا کا بھائیوں جیسا دوست تھا۔ رات کو چاچا اظہار آتا تھا، جو کچھ وقت کے لیے مجھے اُس کمرے سے باہر لے جا کر لاڑکانہ کی سڑکوں پر تھوڑا گھماتا اور پھر واپس لے آتا تھا۔ محلے کی رشتہ دار خواتین گاؤں سے آتی جاتی تھیں تاکہ بچے کی خیریت دریافت کر سکیں۔ گھر والوں کے لیے یہ ایک کٹھن آزمائش کا وقت تھا۔ میرا وہ ننھا، معصوم بھائی، جس کی بڑی بڑی آنکھیں تھیں اور کشادہ پیشانی، جو صرف چار مہینے کا تھا اور ڈاکٹرز کو دیکھ کر رونے لگتا تھا—وہ آنتوں کے انفیکشن کے باعث دنیا سے رخصت ہو گیا۔ بابا نے اُس صدمے کو خاموشی سے برداشت کیا۔ اُس معصوم ننھے بھائی کی پیلے رنگ کی قمیص کئی دنوں تک گھر میں پڑی رہتی تھی اور میں اکثر اُسے اٹھا کر اُس کی خوشبو محسوس کیا کرتی تھی۔ یہ زندگی کا پہلا معصوم دکھ تھا، جو آج بھی دل کو چیر کر رکھ دیتا ہے اور الفاظ سسکیاں بن کر صفحات پر بکھرنے لگتے ہیں۔ کچھ سالوں بعد گھر میں دوبارہ جواد کی پیدائش ہوئی، مگر پہلے جواد کا درد آج بھی دل کے کسی کونے میں چپ چاپ سلگ رہا ہے۔ بابا ایک بے حد خیال رکھنے والا ایسا باپ تھا جو ہماری ذرا سی تکلیف پر فوراً بے چین ہو جایا کرتا تھا۔ جب کبھی موسمی بخار یا کھانسی ہو جاتی تھی تو بابا کی طرف سے اتنی محبت اور دیکھ بھال ملتی تھی کہ دل چاہتا تھا کاش بار بار بیمار ہو جاؤں۔ بابا کے ساتھ گزرا ہوا وہ خوبصورت اور پُرسکون وقت ہوا کے جھونکے کی طرح تیزی سے گزر گیا۔ بابا کا یہ خواب تھا کہ اس کے بچے اچھی تعلیم حاصل کریں اور اعلیٰ یونیورسٹیوں میں پڑھیں۔ یہ خواب بابا نے اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھے۔ جب میرا بڑا بھائی گاؤں کا پہلا ڈاکٹر بنا اور جب میرا دوسرا بھائی سجاد Delft یونیورسٹی نیدرلینڈز سے پی ایچ ڈی کر کے واپس آیا تو بابا نے کہا: “آج میرا سر فخر سے بلند ہو گیا ہے۔” اور آج جب میرا بھائی آصف امریکہ کی یونیورسٹی University of Georgia میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ پڑھا بھی رہا ہے تو بابا جسمانی طور پر تو ہمارے ساتھ نہیں ہے، مگر یقیناً بابا کی روح اپنی دی ہوئی تعلیم اور تربیت پر مسکرا رہی ہو گی اور اپنی کی گئی جدوجہد پر مطمئن ہو گی۔ اپنی اولاد کو اُس راستے پر چلانے کے لیے بابا نے نہ جانے کتنی تکلیفیں سہی تھیں۔ ذمیندار ہونے کے باوجود بابا نے معاشی مسائل کا بہادری سے سامنا کیا۔ چينی چاول کھا کر، ادھار پر کتابیں، قلم، پینسلیں لا کر دینے اور صرف دو جوڑوں کے کپڑوں میں وقت گزار کر بابا نے اپنے خوابوں کو حقیقت بنتے دیکھا۔ آج جب بابا کلراٹھی زمین کی آغوش میں میرے دادا کی کے قریب آرام کر رہا ہے اور میری دل کی دنیا میں ویرانی بسی ہوئی ہے، تو بابا کے بعد زندگی ایک ہولناک، آسیب زدہ خواب کی طرح ڈراؤنی لگتی ہے۔