عمرکوٹ / ٹنڈوجامملک میں سوا صدی سے نہری زراعت پر کام ہو رہا ہے، لیکن سندھ کی نصف زمین پربیابانی زراعت کی گنجائش موجود ہے- ماہرین

عمرکوٹ / ٹنڈوجامملک میں سوا صدی سے نہری زراعت پر کام ہو رہا ہے، لیکن سندھ کی نصف زمین پربیابانی زراعت کی گنجائش موجود ہے- ماہرین

عمرکوٹ / ٹنڈوجام: ملکی و عالمی ماہرین نے کہا ہے کہ ملک میں سوا صدی سے نہری زراعت پر کام ہو رہا ہے، لیکن سندھ کی نصف زمین پربیابانی زراعت کی گنجائش موجود ہے۔ اس لیے آئندہ 40 سالوں کیلئے ایرڈ ایگریکلچرکو فروغ دینا ہوگا۔ ماہرین نے تھر میں طبی پودوں کی کاشت، تحقیق، پراسیسنگ اور مارکیٹنگ پر توجہ دینے، تھر ڈیولپمنٹ اتھارٹی، تھر یونیورسٹی، کھوکھراپار بارڈر کاروبار، سیاحت اور تھر میں سینٹر آف ایکسیلینس فار ریسرچ کے قیام کی تجاویز پیش کیں۔تفصیلات کے مطابق، سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے عمرکوٹ کیمپس کی زیرمیزبانی، اور ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد، ہمدرد یونیورسٹی کراچی اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے تعاون سے "طبی پودوں اور چراگاہی وسائل" کے موضوع پر دوسری عالمی کانفرنس منعقد کی گئی۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر الطاف علی سیال نے کہا کہ تھر دنیا کا سترہواں بڑا صحرہ ہے، جو سندھ کے 33 فیصد رقبے پر مشتمل ہے جوکہ خاص طور پر طبی پودوں کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔ انہوں نے کہا کہ تھر میں زیرِ زمین پانی کے ذخائر موجود ہیں، جن پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے، اور جی آئی ایس ٹیکنالوجی کے ذریعے تھر کی زمین کی ڈیمارکیشن کرنا بھی ضروری ہے۔سندھ زرعی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کہا کہ گزشتہ سوا صدی سے دریائی پانی پر مبنی زراعت پر تحقیق ہو رہی ہے، اب آئندہ 40 سالوں کے لیے بیابانی زراعت کو فروغ دینا ہوگا۔ انہوں نے تجویز دی کہ جانوروں کی بہتر نسلوں، دودھ، گوشت اور زرعی تحقیق کے فروغ کے لیے تھر میں "سینٹر آف ایکسیلینس فار ریسرچ" قائم کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تھر میں سیاحت اور کاروبار کو فروغ دینے کے لیے کھوکھراپار بارڈر کو بحال کیا جائے اور تھر یونیورسٹی اور تھر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے ذریعے علاقے کی ترقی کو مزید مؤثر بنایا جائے۔عمرکوٹ کیمپس کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر جان محمد مری نے کہا کہ تھر کے کئی قیمتی پودے ابھی تک دستاویزی شکل میں محفوظ نہیں ہیں، جس کی وجہ سے یہ یا تو کم استعمال ہو رہے ہیں یا معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چراگاہیں ہماری لائیو اسٹاک انڈسٹری کا بنیادی جزو ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ ہمیں ہربل میڈیسن کے کاروبار اور تحقیقی مراکز قائم کرنے چاہئیں تاکہ ان قیمتی پودوں سے تیار ہونے والی اشیاء کو قومی اور بین الاقوامی منڈیوں میں متعارف کرایا جا سکے۔ہمدرد یونیورسٹی کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر فیصل حیدر رضوی نے کہا کہ انہوں نے سندھ کے 50 طبی پودے اور مصالحہ جات لے جا کر جاپان میں ان پر تحقیق کی، جن میں سے 25 پودے، طبی پودے کینسر کے بیکٹیریا کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔نامور محقق اور ادیب نور احمد جنجھی نے کہا کہ تھر ،بارشوں، زیرِ زمین پانی اور نہری پانی کے مختلف علاقوں سے جُڑی چراگاہوں میں تقسیم ہے، لیکن آہستہ آہستہ چراگاہیں کم ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تھر کے طبی پودے یونانی حکمت، ہربل اور جدید میڈیکل سائنس میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے 100 سے زائد پودوں پر تحقیق کی ہے، جن سے نہ صرف ادویات تیار کی جا سکتی ہیں بلکہ ان کا غذائی استعمال بھی ممکن ہے۔ایف اے اوسندھ آفس کے سربراہ جولئیس گتھینی مکیمی نے کہا کہ تھر کے نوجوان اپنی تعلیم اور قابلیت کے ذریعے تھر کی صلاحیتوں اور پیداوار کو پوری دنیا میں متعارف کروا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تھر ثقافت اور نامیاتی پیداوار کا مرکز ہے اور سب کیمپس کے طلبہ کی جانب سے پیش کیے گئے "سمارٹ ولیج" اور "ہوٹل مینجمنٹ" کے ماڈلز قابلِ تعریف ہیں۔ کانفرنس کے سیکریٹری عبدالحفیظ لغاری، نعیم بروہی، یاسر مری اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کے ڈائریکٹر جنرل ذاکر حسین دھاری، ایف اے او کی مس این کیلری، ظہیر پلیجو، ڈاکٹر عبداللہ سیٹھار، میر حسن آریسر اور دیگر بھی موجود تھے۔کانفرنس میں ملکی اور بین الاقوامی سطح کے 40 تحقیقی مقالے پیش کیے گئے، جبکہ زرعی مصنوعات، تھری ثقافت، تھری نامیاتی زرعی بائی پروڈکٹس سمیت مختلف اشیاء پر مشتمل اسٹالز اور نمائش بھی لگائی گئی۔ اس موقع پر اختتامی تقریب میں شرکاء کو شیلڈز اور ثقافتی تحائف بھی دیے گئے۔