افراد باہم معذوری کا عالمی دن ہر سال دنیا بھر میں 3 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے اکتوبر 1992 میں ایک قرار داد منظور کرتے ہوئے اس دن کو منانے کا اعلان کیا یہ دن اس لیے منایا جاتا ہے کہ خصوصی افراد کو انکے حقوق و فرائض کی آگاہی دی جائے اور انفرادی و اجتماعی طور پر ان کی کاکردگی کوبہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ سال 2024 کا موضوع ہے ''ایک جامع، ترقی پسند اور مستحکم معاشرہ کی تشکیل کے لیے معذور افراد کی قیادت کو فروغ دینا''۔ اس تھیم کا مقصد یہ ہے کہ خصوصی افراد کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے، ان کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اپنی مخفی صلاحیتوں کو بروے کار لاتے ہو ئے اپنی قائدانہ صلاحیتیں استعمال میں لا ئیں۔ یہ عمل انکی انفرا ری فلاح کے ساتھ مثبت معاشرتی بہبود کا فریضہ بھی انجام دے گا۔
پاکستان میں خصوصی افراد کی ملازمت وبحا لی کے لیے 1981 میں آ ر ڈیننس جاری کیا گیا تھا جس میں انکی ملازمتوں کے لیے 2 فیصد کوٹہ مختص کیا گیا تھا۔ حکومت پنجاب نے افراد باہم معذوری کو با اختیار بنائے جائے کا قانون 2022 متعارف کرایا ہے اور خصوصی افراد کے لیے سرکاری و پرائیویٹ اداروں میں با قا عدہ تین فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔ عوام الناس کے استفادہ کے لیے مذکورہ قانوں کا اردو ترجمہ محکمہ سما جی بہبود سے تعلق رکھنے والے آفیسر محمد شاھد رانا نے حال ہی میں کیا ہے۔
اس خاندان کا تصور کیئجے جہاں ایک معذ ور بچہ پیدا ہوا تو گویا صف ماتم بچھ گیا۔وہ والد ین کی امیدتھا اسے ان کے بڑھاپے کا سہارا بننا تھامگر وہ بچہ تو ایک ذمہ داری (Liability) بن گیا۔ اس منفی سوچ کے ساتھ ایسے کئی گل ہونگے جن کو کھلنے سے پہلے مسل دیا گیا۔ وہ دنیا میں آنکھ کھولنے اور جینے کا حق کھو بیٹھے۔ اور جو پیدا ہو ے ان میں سے کچھ کی زندگی مشکل بے حد مشکل بنا دی گیی۔ انھی میں سے کچھ ایسے گوہر نایاب بھی پیدا ہوئے جو نہ صرف کسی پر با ر نہیں بنے بلکہ ایک ذمانے کو سدھا رنے کا فریضہ اٹھایا۔
ہیلن کیلر کا نام تو سب نے سنا ہوگا، وہ دیکھنے اور سننے کی صلاحیت سے عا ری تھی۔وہ امریکی خاتون ایک مشہور مصنف،ایک لیکچرار اور خصوصی افراد کے حقوق کی داعی تھی۔ وہ امید اور طاقت کا استعارہ تھی. اس نے بے شمار لوگوں کے اندر معذ و ری سے لڑ نے کا جذبہ پیدا کیا۔ اور اسکی تقلید میں بے شمار خصوصی افراد نے کا میا بیو ں کے جھنڈے گاڑے۔
اسٹیفن ہیکنگ کو جو مرض لاحق تھاوہ عصبو نو ں اور عضلات کے درمیانے رابطے کو متا ثر کرتا ہے جس کے نتیجے میں عضلات کی کمزوری اور فالج ہوتا ہے۔ اس مرض کی تشخیص تب ہوئی جب وہ اکیس برس کا تھا۔ ہاکنگ نے کا سمولوجی اور تھیوریٹیکل فزکس میں سائنس کی دنیا میں اپنے کام کی وجہ سے بڑا نام کمایا۔ اس کو بے شمار اعزازات اور القابات سے نوازا گیا کیونکہ اس عظیم سا ئنسدان نے اپنی معذوری کو کامیابی کے راستہ کی رکاوٹ بننے نہ دیا دیابلکہ ثا بت کیا کہ اس کے دماغ کی قوت کے آگے سب مشکلات ہییچ ہیں۔
ایسراف ا رما گن ایک ترک مصور تھا۔وہ پیرائشی طور پرنابینا تھا مگر اس نے اپنی مصوری کے ذریعہ دنیا کی منظر کشی کی۔ اس نے رنگوں کا متاثر کن استعمال کرتے ہوئے پہا ڑ، سمندر، شہر ادلوگوں کی تصویر کشی کی ہے۔ ترکی، امریکہ، یورپ اور ایشیا میں اسکے فن پاروں کی نمائشیں ہو چکی ہیں۔
پاکستان میں ایسے خصوصی افراد کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنے عزم، ہمت اور پختہ ارادے سے اپنے راستے کے تمام پتھروں کو نہ صرف ہٹایا بلکہ انھیں پتھروں کے راستے کو کہکشاں بنا دیا۔منیبہ مزاری گاڑی کے حادثہ کے نتیجہ میں معذور ہوئی۔وہ پاکستان کی پہلی خاتون ہے جسکو وہیل چیر پر ہونے کے باوجوداقوام متحدہ کی خیر سگالی کی سفیر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔وہ ایک موٹیو یشنل سپیکر اور معذور افراد کے حقوق کی علمبردار ہے. منینہ مزاری عزم و ہمت کی ایک مثال ہے جس نے معذوری کو کمزوری نہیں بلکہ اپنی طاقت کا ہتھیار بنا لیا ان کو پاکستان کی آئرن لیڈی کہا جاتا ہے۔
صائمہ سلیم سیف ایس ایس کا امتحان پاس کر کے پاکستان کی پہلی نابینا سفارتکار بنی۔ بین الاقوامی فورمز پر وہ پاکستان کی نمائندگی کرتی ہے۔ وہ خصوصی افراد کے لیے ایک مثال ہے جو مقابلے کا امتحان دینا چاہتے ہیں.پا کستا ن کے نامور ڈاکٹر خالد جمیل،میو ہسپتال کے آرتھو پیڈک وارڈ کے سر براہ اور نیوز کاسٹر بھی رہ چکے ہیں، ایک حادثہ میں جسمانی معذوری کا شکار ہوئے۔ انہوں نے ایک عالمی کانفرس میں سب سے پہلے معذور افراد کے لیے ''خصوصی افراد'' کی اصطلاح متعارف کرائی۔ جنہیں اب ''افراد باہم معذوری'' کہا جاتا ہے۔
جنوبی پنجاب کے شہر ملتان میں ذاھد قریشی ایک محترک سوشل ورکر اور ایک این جی او کے روح رواں ہیں۔ انہوں نے وہیل چیرز کی ایک ور کشاپ بنا رکھی ہے۔احمد عبد اللہ پیدائشی نابینا نہیں تھے مگر بتدریج اپنی بینائی کھودی۔ وہ دو کتابوں کے مصنف ہیں۔معذوروں سے متعلق لگی بندھی سوچ کو ختم کرنے میں انکا کردار ہے۔ ڈاکٹر آمنہ سرور پاکستان کی پہلی پولیو سے متاثرہ ڈاکٹر ہے۔ وہ کئی مشکلات عبور کر کے اپنا مقصد حاصل کر پائی وہ پر عزم تھیں کہ کسی سے صلاحیتوں میں کم نہیں اور یہی اعتماد اسکواپنی منزل پر لے گیا۔سرگو دھا یو نیورسٹی کے معروف ادیب اور سکا لر پرو فیسر شیخ محمد اقبا ل جو نابینا ہیں،اکادمی ادبیا ت پاکستان نے انکے فن اور شخصیت پر کتا ب شایع کی ہے۔اس کے علاوہ بیشمار خصوصی افراد جن کا احاطہ اس کالم میں ممکن نہیں۔
یہ بھی ایک تعجب آمیز بات ہے کہ معذوری کو ایک بہت بڑی رکاوٹ اور مسئلہ کے طور پر پیش کرنے والے کچھ وہ لوگ ہیں جو خود کسی معذوری کا شکار نہیں۔اپنے آپ کو نار مل سمجھنے والے یہ لو گ کسی کی بظاہر ایسی کمی کا مذاق اڑاتے ہیں جس میں ان کا کوئی دوش نہیں۔ جبکہ ایک کمی کے بدلہ قدرت نے کوئی اور خو بی فیاضی سے خصوصی افراد کو عطا کی ہوتی ہے۔
پاکستانی خداداد صلاحیتوں کے مالک ایسی قوم ہیں جنکو نئے افق،نئے راستے تلاش کرنا آتے ہیں۔خصوصی افراد وہ دانائے بینا رکھتے ہیں جو ایک عام انسان نہیں رکھتا۔ایک دیکھنے والی آنکھ چاہیے جو ان کی چھپی صلاحیتوں کو پرکھ سکے اور جلا دے سکے۔
0 تبصرے