سندھ کی منفرد زرعی اور ثقافتی مصنوعات عالمی مارکیٹ میں فروغ پانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر فتح مری

ریڈ سندھی گائے سندھ کی موروثی نسل ہے، لیکن برازیل اور نیدرلینڈ نے جینیاتی تبدیلی کے بعد اس کی عالمی ٹریٹی رجسٹریشن حاصل کی

سندھ کی منفرد زرعی اور ثقافتی مصنوعات عالمی مارکیٹ میں فروغ پانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر فتح مری

ٹنڈوجام: سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کہا ہے کہ سندھ کی منفرد زرعی اور ثقافتی مصنوعات جیسے ریڈ سندھی گائے، سندھڑی آم، اجرک، باسمتی چاول اور کاشی و دستکاری کے قریباً پچاس اشیاء عالمی مارکیٹ میں فروغ پانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ تاہم، کچھ مصنوعات کی عالمی سطح پر رجسٹریشن کا دعویٰ دیگر ممالک نے اپنے نام سے کیا ہے۔ ان خیالات انہوں نے سندھ زرعی یونیورسٹی اور انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن پاکستان کے تعاون سے منعقدہ سمینار "جینیاتی وسائل اور وابستہ روایتی علم پر وِپو معاہدے کی اپنائیگی پر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت" میں صدارتی خطاب کے دوران کیے۔ڈاکٹر فتح مری نے مزید کہا کہ ریڈ سندھی گائے سندھ کی موروثی نسل ہے، لیکن برازیل اور نیدرلینڈ نے جینیاتی تبدیلی کے بعد اس کی عالمی ٹریٹی رجسٹریشن حاصل کی۔ سندھ کی دیگر مصنوعات جیسے انڈس ڈولفن، ریڈ چاول، سندھی پلا مچھلی، اور سگداسی چاول بھی عالمی سطح پر پیٹنٹ رجسٹریشن کی اہل ہیں۔انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن (آئی پی او) پاکستان کے چیئرمین اور سابق سفارتکار فرخ امل نے دانشورانہ املاک، جینیاتی وسائل اور روایتی علم کے تحفظ کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 26 ممالک، بشمول پاکستان، ڈبلیو آئی پی او معاہدے کے رکن ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملکی مصنوعات میں اقتصادی پوٹینشل موجود ہے اور پاکستان کو اپنی قومی اقتصادی سیکیورٹی اور انڈسٹریلائزیشن کو فروغ دینا چاہیے۔آئی پی او کی سینئر پیٹنٹ ایگزامنر صائمہ کنول نے کہا کہ سندھ کی مصنوعات جیسے امرود، ہاتھ سے بنی دستکاری اور کاشی کی مصنوعات عالمی رجسٹریشن کی اہل ہیں۔ انہوں نے اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ وہ پاکستان کی مصنوعات کو عالمی معیار اور مارکیٹ اپنی اہمیت اور معیار کا لوہا منوانے کیلئے کے لئے فعال کردار ادا کریں۔سمینار میں وائس چانسلر کے تدریسی امور کے مشیر ڈاکٹر ضیاء الحسن شاہ، ڈائریکٹر اورک ڈاکٹر تنویر فاطمہ میانو، تصفیح فاطمہ، اور دیگر نے خطاب کیا۔ بعد ازاں پینل ڈسکشن میں فرخ امل، ڈاکٹر اعجاز کھوہارو، آبادگار رہنما سید محمود نواز شاہ، ڈاکٹر شاھنوار مری، محمد رفیق، ڈاکٹر تنویر فاطمہ اور دیگر نے ملکی مصنوعات کی عالمی سطح پر ملکیت اور رجسٹریشن کے متعلق مختلف تجاویز پیش کیں۔تقریب میں رجسٹرار غلام محی الدین قریشی، مختلف اداروں کے ماہرین، اساتذہ، طلبہ اور ترقی پسند کسانوں نے بھی شرکت کی۔