پاکستان میں فرانزک لیب اور ماہرین کی کمی کو پورا کرنے اورشواہد جمع کرنے کے عمل کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے، ماہرین

پاکستان میں فرانزک لیب اور ماہرین کی کمی کو پورا کرنے اورشواہد جمع کرنے کے عمل کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے، ماہرین

پاکستان میں فرانزک لیب اور ماہرین کی کمی کو پورا  کرنے اورشواہد جمع کرنے کے عمل کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے، ماہرین

کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں ورکشاپ سے خطاب میں فرانزک ماہرین نے کہا ہے کہ ملک میں فرانزک لیب اور ماہرین کی کمی ہے ، یہ کمی پوری کرنے کی شدید ضرورت ہے، شواہد جمع کرنے کےروایتی طریقے میں بیشتر شواہد ضائع ہوجاتے ہیں، جائے وقوعہ سے شواہد جمع اور محفوظ کرنے کے عمل کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی بھی ضرورت ہے، فرانزک شواہد ہی سب سے اہمیت کے حامل فنگر پرنٹس ہوتے ہیں، جو جڑواں بھائیو ں کے بھی مختلف ہوتے ہیں یہ باتیں ان ماہرین نے ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج اوجھا کیمپس میں ' فرام کرائم سین ٹوٹرائل ماسٹرنگ ؛ فرانزک انویسٹی گیشن" کے عنوان سے منعقد ہ دو روزہ ورکشاپ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہیں،حادثات اور جرائم کی تفتیش کے لیے فرانزک نمونے جمع کرنے اور انہیں محفوظ کرنے سے متعلق اپنی نوعیت کی یہ پہلی تربیتی ورکشاپ ڈاؤ یونیورسٹی کے شعبہ فرانزک میڈیسن اینڈ ٹاکسیکولوجی کے زیرِ انتظام منعقد ہوئی، ورکشاپ کے اختتامی سیشن میں مہمان خصوصی پرووائس چانسلر ڈاکٹر جہاں آراحسن نے مقررین کو شیلڈز اور شرکا میں اسناد تقسیم کیں، ورکشاپ میں ہیڈآف ڈپارٹمنٹ پروفیسر ڈاکٹر رملہ ناز، کنسلٹنٹ فرانزک افضال حسین، سپریم کورٹ کی سینئر ایڈووکیٹ اور ایکسپرٹ لا اِ ن فرانزک سائنس ڈاکٹر رعنا خان ، ڈاؤ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ذکی الدین احمد، ڈی ایس پی سعیدآباد، سندھ پولیس کے کرائم اینڈ انویسٹی گیشن برانچ کے افسران، وکلا، میڈیکو لیگل افسران اورشعبہ فرانزک میڈیسن کے اساتذہ نے شرکت کی، ڈاکٹر رملہ ناز نے کہا کہ جب بھی کوئی کیس رپورٹ ہوتا ہے تو ابتدائی سوالات یہی اٹھتے ہیں کہ کس نے کیا؟ کیا ہوا؟ کب ہوا؟ کہاں ہوا (یہاں ہوا یا کوئی اور کرائم سین بھی ہے)؟ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ وکٹم کون ہے ؟ یہاں کون سے شواہد موجود ہے؟ انہوں نے کہا کہ متاثرہ فرد کی شناخت بہت زیادہ اہم ہے کچھ کیسز میں مرنے والے کا چہرہ پہچان میں نہیں آتا جس کے لیے مقتول /متوفی کی اشیا جیسا کہ والٹ ، گھڑی، خاتون ہو تو جیولری کے ذریعے پہچان کی جاتی ہے اور اگر کوئی ایسی چیز جائے وقوعہ سے نہ ملے تو ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے شناخت معلوم کی جاتی ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ شواہد بھی مختلف طرح کے ہوتے ہیں ایک تو جو سامنے موجود ہوتے ہیں اور بائیولوجیکل شواہد بھی ہوتے ہیں ، جیسا کہ فنگر پرنٹس ، فوٹ پرنٹس وغیرہ، انہوں نے مختلف کیسز میں متاثرہ فرد اور مجرم کی شناخت معلوم کرنے کے طریقوں پر روشنی ڈالی، انہوں نے اس حوالے سے فضائی حادثات میں جاں بحق ہونے والی معروف شخصیات جنید جمشید اور ایرانی صدرابراہیم رئیسی کی جسمانی شناخت میں فرانزک تحقیق کا حوالہ دیا، انہوں نے شواہد کے لحاظ سے 2022 کے ہائی پروفائل دعا زہرہ کیس کا بھی حوالہ دیا، ورکشاپ میں 2018 کے زینب قتل کیس پر بھی بات چیت کی گئی کہ مختلف نوعیت کے کیسز میں کن طریقوں کو عمل میں لاتے ہوئے شواہد جمع کیے جاتے ہیں، ڈاکٹررملہ نے کہا کہ فرا نزک نمونے کو جمع کرتے ہی اسے پلاسٹک بیگ میں بند کیا جائے تو وہ وہیں ختم ہوجاتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے خشک ہونے دیا جائےکیونکہ خشک ہونے کے بعد اس میں موجود ڈی این اے برسوں تک محفوظ رہتا ہے، ڈاکٹررملہ نے کہا کہ اس ورکشاپ میں پائیدار ترقی کے حصول کے ہدف 16 پر توجہ مرکوز کی گئی ہے ، پائیدار ترقی کے حصول کا ہدف 16 عدم تحفظ کے شکار کمزور افراد کے حقوق کے لیے قانون کی حکمرانی اور پُرامن معاشرے کی تشکیل پر زور دیتا ہے، ڈاکٹر رملہ نے خودکشی کے ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کرائم سین ٹیم کو نہیں بلایا گیا تھا جبکہ بلایا جانا چاہیے تھا کیونکہ یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ خودکشی کی گئی یا کسی نے قتل کرکے خودکشی ظاہر کی،انہوں نے ا س بات کی نشاندہی کی کہ بعض کیسز میں سب سے قریبی فرد کو ہی شک کے دائرے سے باہر رکھا جاتا ہے اور وہی اصل قاتل نکلتا ہے لہٰذا اس حوالے سے ٹریننگ کی ضرورت ہے جس پر ڈی ایس پی سعید آباد نے حوالے سے کہا کہ اب معاملات میں بہتری آرہی ہے اور مختلف حادثات ، قتل اور ریپ کے کیسز میں کرائم سین ٹیم کو بھیجا جاتا ہے، ڈاکٹررملہ نے تجویز پیش کی کہ اگر جیلوں میں موجو د قیدیوں کا ڈی این اے اور فنگر پرنٹس کا ڈیٹا ہی جمع کرلیا جائے تو جرائم کی شرح میں واضح کمی آسکتی ہے کیونکہ وہی مجرم بار بار جرائم کرتے ہیں، بعدازاں فرانزک کنسلٹنٹ افضال حسین نے فرانزک تحقیق اور شواہد جمع کرنے سے متعلق مفصل لیکچر دیا، انہوں نے جائےوقوعہ پر موجودشواہد کو پہچاننے ، جمع کرنے اور محفوظ کرنے کے طریقے بتائے، انہوں نے کرائم سین کی ناکہ بندی کرنے اور اس کی فوٹوگرافی پر بھی گفتگو کی، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کرائم سین کی فوٹوگرافی تو کی جاتی ہے مگر اکثر دفعہ موبائل فون کا استعمال کیا جاتا ہے ، جس میں سب سے بڑا مسئلہ اینگل کا آتا ہے کہ تصاویر بنانے والا کہاں تھا ، کونسی چیز کہاں تھی، دوسرا یہ کہ موبائل فون کی تصاویر کا رزلٹ فرانزک تفتیش کے لحاظ سے بہت اچھا نہیں ہوتا، اس حوالے سے جدید کیمروں کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے کہ کھینچی گئی تصویر کو زیادہ سے زیادہ زوم کیا جاسکے، ان کا مزید کہنا تھا کہ شواہد جمع کرنے کے بعد اسے فرانزک ماہرین تک پہنچانے میں بھی مسائل ہیں ، انہوں نے کہا کہ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہےکہ انویسٹی گیشن افسر کہتا ہے کہ فرانزک معائنے کے لیے کسی کو پانچ ہڈیاں بھیجی گئی ہیں لیکن 3 موصول ہوتی ہیں تو وہ باقی 2 کہاں گئیں کس نے انہیں ضائع کیا یہ مسئلہ بھی آتا ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ فرانزک نمونوں کوریڈٹیمپر ایوی ڈینٹ ٹیپ سے بند کیا جائے کہ اگر کوئی کھولنے کی کوشش کرے تو وہ ٹوٹ جاتی ہے یا پھر وہ دستیاب نہ ہو تو عام ٹیپ چسپاں کرکےاس پر دستخط ایسے کیا جائے کہ اگر ٹیپ ہٹائی جائے تو دستخط کی جگہ بدلنے سے معلوم ہوجائے گا ،ساتھ ہی انہوں نے شرکا سے سوال کیا کہ فرانزک نمونے بھیجنے کے لیے لفافے کیسے سیل کیے جاتے ہیں جس پر ایک پولیس افسر نے بتایا کہ حاضر ڈیوٹی افسر فرانزک شواہد جمع کرتا ہے مگر لفافے پردستخط انویسٹی گیشن افسر کرتا ہے اور وہی اسے سیل کرتا ہے جس پر کنسٹلنٹ فرانزک افضال حسین کا کہنا تھا کہ یہی چیزیں تفتیش میں رکاوٹ بنتی ہیں کہ کون نمونہ جمع کررہا ہے اس کا ریکارڈ نہیں اور جس نے جمع نہیں کیا وہ دستخط کررہا ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرانزک تحقیق میں سب سے اہم شواہد فنگر پرنٹس ہیں کیونکہ جڑواں بچوں کے ڈی این اے میں بھی اتنا فرق نہیں ہوتا لیکن ان کے فنگر پرنٹس الگ ہوتے ہیں لہٰذا یہ کسی بھی مجرم کو پکڑنے کی اہم کڑی ہیں، بعدازاں سپریم کورٹ کی سینئر ایڈووکیٹ ڈاکٹر رعنا خان نے مختلف کیس اسٹڈیز کا حوالہ دیتےہوئے مقدمات کی بروقت تفتیش میں فرانزک کی اہمیت پرروشنی ڈالی، انہوں نے کرمنل پروسیجر کوڈ 1898، قانونِ شہادت 1984 ، پولیس رولز 1934 میں فرانزک تحقیق سے متعلق دفعات پر روشنی ڈالی، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صرف 5فرانزک لیبز ہیں جو کہ تعداد میں کافی کم ہیں لہٰذا ان لیبز کی تعداد میں اضافہ کرنے کی اشد ضرورت ہے، انہوں نے مزید کہا کہ فرانزک لیبارٹریز میں آڈیو ویژیول انالسز، ڈیجیٹل فرانزکس،کرائم/ ڈیتھ سین انویسٹی گیشن، فائر آرمز اینڈ بیلسٹکس، فنگر پرنٹس ، فرانزک فوٹوگرافی کی سہولیات موجود ہونی چاہئیں،انہوں نے کہا کہ ملک میں فرانزک ماہرین کی کمی ہے لہٰذا ان کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے،انہوں نے کہا کہ فرانزک انویسٹی گیشن ایکسپرٹ کی ٹریننگ ہونی چاہیے اور اس حوالے سے کریکولم ڈیزائن کیا جانا چاہیے، ڈاکٹر رعنا خان کا مزید کہنا تھا کہ وسائل کی کمی کے باوجود ہماری پولیس فورس شواہد اکٹھے کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ان کی بہت زیادہ تحقیر کی جاتی ہے،بعض فاضل ججز کی طرف سے بھی اس طرح کیا جاتا ہے جبکہ اگر انہیں نرمی سے بھی کہا جائےتو وہ مطلوبہ چیزیں لے آئیں گے، کسی بھی انسان کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے تو اس کے کام کرنے کی صلاحیت پر بھی اثر اندا ز ہوتی ہے، جبکہ دوسرے روز شرکا نے جائے حادثہ سے فرانزک نمونے جمع کرنے کے طریقے بتائے جس کے ماہرین نے ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مختلف نوعیت کے جرائم کےفرانزک نمونے جمع کرنے اور محفوظ رکھنے کے طریقوں پر مبنی ٹریننگ کروائی، ورکشاپ کے اختتام پر ڈاکٹر رعنا خان اور کنسلٹنٹ افضال حسین کو شیلڈ پیش کی گئی، قبل ازیں ورکشاپ کے پہلے روز شرکا کا پری ٹیسٹ لیا گیا جس میں انہوں نے دیے گیے سوالات کے جوابات بھی دیے جس کے بعد فرانزک ایکسپرٹ فار سندھ ، پروفیسر ڈاکٹر رملہ ناز ، کنسلٹنٹ افضال حسین اور ڈاکٹر رعنا نے شرکا کو فرانزک شواہد جمع کرنے، تفتیش کا عمل تیز کرنے میں فرانزک ماہرین کی مدد لینے پر مبنی ٹریننگ دی، ڈاکٹر رملہ نے ورکشاپ کے مقاصد اور فرانزک میڈیسن اینڈ سائنسز کا تعارف دیا ، شواہد اور ان کی فرانزک شناخت پر گفتگو کی ۔