عزمِ استحکام آپریشن: حکومتی ضرورت اور قبائلی تحفظات کی داستان

عزمِ استحکام آپریشن: حکومتی ضرورت اور قبائلی تحفظات کی داستان

عزمِ استحکام آپریشن: حکومتی ضرورت اور قبائلی تحفظات کی داستان

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ماضی کے فوجی آپریشنز کے بعد پاکستان کو یہ توقع نہیں تھی کہ دہشتگردی دوبارہ بڑھے گی، اور حالیہ اعلان کردہ آپریشن ’عزمِ استحکام‘ فوج کی نہیں بلکہ حکومت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے شدت پسندوں کے خلاف ایک نیا آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، جس پر حزب اختلاف اور قبائلی عمائدین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ امن و امان کے قیام اور دہشتگردی کی نئی لہر کے خاتمے کے لیے فوجی آپریشن پر سیاسی جماعتوں اور قبائلی عمائدین سے مشاورت جاری رہے گی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا یہ نیا آپریشن فوج کا منصوبہ ہے جس کی ذمہ داری حکومت نے مجبوراً لی ہے، تو انہوں نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور اسے یہ ذمہ داری لینی بھی چاہیے۔ یہ آپریشن فوج کی نہیں، بلکہ ہماری ضرورت ہے۔ ماضی میں پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف کئی بڑے اور چھوٹے آپریشنز کیے گئے ہیں۔ ان میں زیادہ تر آپریشنز سابق فاٹا کے مختلف علاقوں میں ہوئے ہیں۔ 2007 میں جنرل پرویز مشرف نے سوات میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف پہلا بڑا فوجی آپریشن ’راہ حق‘ شروع کیا۔ 2009 میں سوات میں سکیورٹی خراب ہونے پر ملا فضل اللہ کے خلاف آپریشن ’راہ راست‘ کیا گیا۔ جنوبی وزیرستان میں 2009 میں آپریشن ’راہ نجات‘ اور 2012 میں جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ’ضرب عضب‘ کیا گیا۔ 2016 میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی کمان سنبھالی تو آپریشن ’رد الفساد‘ شروع ہوا۔ حکومت کے حالیہ آپریشن کے اعلان پر قبائلی عوام خوش نہیں ہیں۔ ضلع اورکزئی کے نوجوان خیال زمان کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقے کے لوگ آپریشنز سے تنگ آ چکے ہیں اور اب خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں آپریشنز سے امن قائم نہیں ہوا، اور حکومت کو امن کے قیام اور علاقے کی ترقی کے لیے کوئی تیسرا راستہ اپنانا چاہیے۔ باجوڑ کے محمد عثمان کا کہنا ہے کہ ہر چند سال بعد ایک آپریشن شروع کر دیا جاتا ہے، لیکن قبائلی علاقوں کی پسماندگی پر توجہ نہیں دی جاتی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی ان علاقوں کی پسماندگی اور وعدوں پر عملدرآمد نہ ہونے کو قبائلی عوام کے تحفظات کی وجہ بتایا۔ وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ قبائلی عوام کا ایک بڑا حصہ آپریشن کے خلاف نہیں ہے۔ تاہم عوامی سطح پر ردعمل شدید ہے اور عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مثلاً ضلع کرم میں چمکنی قوم نے فیصلہ کیا ہے کہ آپریشن کے نتیجے میں اگر کسی نے نقل مکانی کی تو انہیں جرمانہ کیا جائے گا۔ پاکستانی حکومت نے آپریشن کا اعلان تو کر دیا تاہم قبائلی علاقوں کے عوام اس فیصلے سے خوش نظر نہیں آتے