فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی
اسلام آباد (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستیں منظور کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کو کالعدم قرار دے دیا۔
فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی۔
سماعت شروع ہوئی تو جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ گزشتہ حکم کے مطابق اٹارنی جنرل کے دلائل جاری ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیس کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی شروع کر دیا گیا تھا۔
جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو دلائل مکمل کرنے دیں پھر سب سنیں گے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کو بتانا چاہتے ہیں کہ 2015 میں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں کیوں بنائی گئیں۔
جس پر جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ ماضی کی فوجی عدالت میں کس کا ٹرائل ہوا؟ کیا 2015 کے ملزمان عام شہری تھے، غیر ملکی یا دہشت گرد؟ .
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان میں مقامی اور غیر ملکی شہری شامل ہیں، جن پر 2015 میں مقدمہ چلایا گیا ان میں دہشت گردوں کے سہولت کار بھی شامل ہیں، ملزمان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ ٹو کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوال پوچھا گیا کہ ملزم پر فرد جرم کیسے عائد ہوگی؟ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں فوجداری مقدمے کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے، 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل فوجداری عدالت کی طرز پر کیا جائے گا، فیصلے میں وجوہات اور شہادتیں اور شہادتیں پیش کی جائیں گی۔ بھی ریکارڈ کا حصہ بنیں، آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کا حق بھی میسر ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 21ویں آئینی ترمیم اس لیے کی گئی کیونکہ دہشت گرد آرمی ایکٹ کے دائرہ کار میں نہیں تھے، 21ویں آئینی ترمیم دہشت گردوں کے فوجی ٹرائل کے لیے کی گئی۔
جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ ترمیم دہشت گردوں کے ٹرائل کے لیے ضروری تھی تو عام شہریوں کے لیے کیوں نہیں؟ کیا 21ویں آئینی ترمیم کے دوران بھی ملزمان نے فوج اور املاک پر حملہ کیا؟ .
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 21ویں ترمیم میں حساس علاقوں میں حملہ آوروں کے فوجی ٹرائل کی شق شامل تھی۔
جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ جو ٹرائل فوجی افسران کے لیے قابل قبول نہیں، وہ دوسروں پر کیسے ہوا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں ترمیم کے معاملے میں تعصب کا معاملہ اٹھایا گیا۔
جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت شہری کیسے آتے ہیں؟ جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ اٹارنی جنرل صاحب آئین کا آرٹیکل 8 کیا کہتا ہے؟ .
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 8 کے مطابق بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی برقرار نہیں رہ سکتی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آرمی ایکٹ فوج میں نظم و ضبط کے قیام کے لیے ہے، فوج میں نظم و ضبط کا قانون عام شہریوں پر کیسے لاگو ہو سکتا ہے؟ 21ویں ترمیم کا دفاع کیسے کیا جا سکتا ہے؟ .
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوج کی نمائش اندرونی ہے اور فوج کے فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹیں ڈالنا بیرونی معاملہ ہے، جو بھی اس زمرے میں آتا ہے اس کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ جن قوانین کا حوالہ دے رہے ہیں وہ فوج کے نظم و ضبط سے متعلق ہیں۔ آئین ہر قیمت پر بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے، فوج کا نظم و ضبط اور بنیادی حقوق کے قوانین کی معطلی شہریوں پر کیسے مسلط کی جا سکتی ہے؟ عدالت نے دروازہ کھول دیا کہ ٹریفک سگنل توڑنے والا اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہو جائے گا، کیا ہم آئین کی تشریح کر دیں کہ جب چاہیں بنیادی حقوق معطل کر دیں۔ .
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کورٹ مارشل آرٹیکل 175 کے تحت قائم عدالتیں نہیں ہیں، جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ کورٹ مارشل آرٹیکل 175 کے تحت نہیں بلکہ آئین اور قانون کے تحت قائم عدالتیں ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کورٹ اور کورٹ مارشل میں کیا فرق ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کورٹ مارشل آرمی ایکٹ کے تحت قائم کی گئی عدالت ہے، کورٹ مارشل آرٹیکل 175 کے تحت نہیں بلکہ ہائی کورٹ کے تحت ہوتا ہے، ملٹری کورٹ کے فیصلے کو آئینی درخواست کے ساتھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آرٹیکل 10 اے کے تحت فیئر ٹرائل کا کیا ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 21ویں آئینی ترمیم میں قانونی عمل کو تحفظ دیا گیا، آرمی ایکٹ کا اطلاق اسی وقت ہوگا جب جرم کا تعلق فوج سے ہو، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق وزیراعظم ہاؤس اور دفتر خارجہ پر حملوں پر بھی ہوسکتا ہے۔ آرٹیکل 175 کی بنیاد پر کورٹ مارشل کو کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا۔
عدالت نے فوج کی تحویل میں موجود ملزمان کی درخواستیں واپس کر دیں۔جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ فوجی تحویل میں موجود افراد کی درخواستیں بیان حلفی کے ساتھ شامل نہیں، فوجی تحویل میں موجود 9 ملزمان کی درخواستیں واپس لے لی گئیں۔
اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو بعد میں سنایا گیا۔
0 تبصرے